[RIGHT]،فرنٹ آفس پر تو کوئی نہیں بیٹھا تھا آس پاس نظر یں دوڑائی تو دیکھا کہ کئی آنکھیں مجھے حیرت و استجاب سے
دیکھ رہی ہیں یہ چار پانچ بندے اور بندیاں تھیں اور سب کے سب فارنرز تھے کچھ چپٹے کچھ گورے، یعنی ہماری
پاکستانی زبان میں جاپانی اور یوریٹین، ہاے ہوئی کے بعد میں نے اشارتاً ان سے پوچھا کہ ھو ٹل کا عملہ کہاں ہے،
انہوں نے کہا" ان دی کیچن" اور ہاتھ سے ایک روم کی طرف اشارہ کیا ،میں جھجھکتے ہوئے اس روم کی طرف
بڑھا کیونکہ یوں کس کے کچن میں داخل نہیں ہونا چاہئے، لیکن مجھے جلدی تھی اس لئے تکلفات کو بالاے طاق
رکھتے ہوئے دروازے کو ہلکے سے کھول کر میں نے آہستہ سے کہا کہ کوئی ہے؟ تو کچن میں کام کرنے والے
ایک صاحب ہاتھ صاف کرتے ہوئے باہر آئے میں نے اپنا مدعا بیان کیا کہ کمرہ چاہئے انہوں نے کہا ہاں مل جائے
گا، 500 کا ہے میں نے صرف گرم پانی کا پوچھا انہوں نے کہا ہاں ہے، میرے لئے بس اتنا ہی کافی تھا کیونکہ
میں فوراً سے پیشتر نہانا چاہتا تھا۔ میرا خیال ہے کہ شاید میں زندگی میں کبھی بھی اتنا مٹی میں نہیں آٹا ہونگا جتنا
آج آٹا تھا ، ظاہر ہے میری بائیک بھی مٹی مٹی ہورہی تھی نیچے کمرے میں جانے سے پہلے کھانے کا آرڈر دے
دیا وہ سارے فارنرز بھی غالباً کھانے کے آڈرز دے کر بیٹھے ہوئے تھے۔ نیچے کمرے کے باتھ روم میں گرم پانی
آرہا تھا کیونکہ آتے ہوئے الیکٹر ک گیزر دیکھ چکا تھا اس لئے خوب اچھی طرح نہاکر اور صاف کپڑے پہن کر
پہلے تو نمازیں پڑھیں اور تھوڑی کمر سیدھی کی کیونکہ سارے دن کا تھکا ہارا ڈرائیو کرکے پہنچا تھا کچھ وقت
کمرے میں گذار کر جب میں اوپر ڈائننگ ہال میں پہنچا تو ہال لوگوں سے خالی ہوچکا تھا صرف ایک گورا بیٹھا
کتاب پڑھ رہا تھا، میں خاموشی سے دوسری ٹیبل پر بیٹھ گیا البتہ میں اس رخ پر بیٹھا تھا ہم دونوں کا آمنا سامنا تھا
جتنی دیر میں میرا کھانا آیا اس گورے نے مجھ میں کچھ دلچسپی دکھائی جوکہ عموماً برخلاف عادت ہے اس نےھ
سے میرا نام پوچھا اور کہاں سے آرہے ہو؟ بائیک پر ہو؟ کہاں کا ارادہ ہے وغیرہ وغیرہ یہ سن کر کہ میں کراچی
سے آیا ہوں اور پنڈی سے اکیلے بائیک پر سفر شروع کیا ہے اور خنجراب پاس سے ہوکر آیا ہوں تو اس کے منہ
سے نکلا ،" اوہ گریٹ "اس دوران کھانا آگیا کھانے کے بعد میں نے ہوٹل کے مالک کو (جسکو میں کافی دیر تک
ملازم سمجھ رہا تھا وہ ہی بندہ جو ہاتھ صاف کرتا ہوا آیا تھا جس نے مجھے کمرہ دیا تھا) دو چائے کا آڈر دیا اور
گورے کو اپنی ٹیبل پر انوائٹ کیا وہ فوراً ہی آگیا گویا کہ انتظار ہی کر رہا ہو ، اس نے اپنا تعارف کروایا اور جو
رواداد بیان کیں اس کا لب لباب یہ تھا کہ اس کا نام ??مسٹر زاوئے?? ہے فرانس کا باشندہ تھا اور سائیکلوں پر
پاکستان اور ایشیا کو ایسپلور کرنے نکلے تھے، اس کا دوسرا ساتھی جاپانی تھا اور پسسو گلیئشر پر پہاڑ سے
گر کر ہلاک ہوگیا تھا جسکی ڈیڈ باڈی جاپانی سفارت خانے نے جاپانی بھجوائی تھی اور اس جاپانی کے سامان میں
اس"زاویے" کا پاسپورٹ تھا جو ضابطے کی کاروائی کے بعد اسکو ملنا تھا، اپنے اس پاسپورٹ کے انتظار میں یہ
شخص پچھلے ایک ہفتے سے اس ہوٹل میں مقیم تھا میں نے بھی اپنا تفصیلی تعارف کروایا اور اپنے سفر کے
حالات بتائے اور ازراہِ تفنن اسکو کہا کہ تمہارا نام میں ہمیشہ یاد رکھونگا کہ ہماری زبان میں زاویے، اینگل کو
کہتے ہیں لحاظہ یہ نام بھلانے والا نہیں ہے اور یہ ہے بھی حقیقت کہ زندگی میں بہت سے گوروں سے واسطہ پڑا
ہے کسی کا نام ولیم کسی کا جوزف، اسٹیفننس وغیرہ وغیرہ، سب بھول بھال گئے،
یہاں ایک بات کیہ نا چاہ رہا ہوں کہ دیکھے کہ کس طرح دنیا بھر سے لوگ ھمارے ملک کی طرف کھنچھے چلے
آتے ہیں، اور کیا کیا جتن کر کے اتے ہیں اسی زاوئے کو دیکھے کہ ایک ہفتہ تو اسے صرف اس ہوٹل میں رہتے
ہوے ہوگیا تھا اور پتا نہیں کتنے دن پہلے یہ پاکستان میں داخل ہوا ہوگا،میرے پوچھنے پر بتایا تھا کہ تقریبا مہینہ
ہوگیا ہے،سائیکل پر آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ کتنا مشکل کام ہے یہپہاڑوں میں سائیکل چلانا،ہم تو موٹر سائیکل چلا
کر ہی اپنے آپ کو پھننے خان سمجھ بیٹھے ہیں میں اس شخص کو سلیوٹ کرتا ہوں۔ھمارا ملک سیاحوں کی جنت
ہے،لاکھوں فارنرز یہاں وزٹ کرنا چاہ رہے ہیں لیکن ہم نے اس جنت کو جہنم بنا رکھا۔سن 2010 میں جب ہم
فیری میڈو گئے تھے تو وہاں روم نہی تھا ہم خیمے میں رہے تھے،تمام رومز فارنرز سے بھرے ہوے تھے،بلکہ
بیال کیمپ جاتے ہوے تو دو اکیلی ۔۔یورپئین عورتیں بھی ملی تھیں جن کے ساتھ دودھ پیتا بچہ بھی تھا،۔
سن 80ع کی بات حے جب ہم اسٹوڈنٹ ہوا کرتے تھے،اس وقت گلگت،ہنزہ،اسکردو میں بلامبالغہ فارنرز کی کثرت
سے تل دھرنے کی جگہ نا ہوتی تھی،اور ہوٹل والے ہم اسٹوڈینٹس کو گھاس نہی ڈالتے تھے
"فرنچ باشندہ مسٹر " زاوئے
ہنزہ میں ھوٹل کا لان
زاوئے کی بائیسکل
[/RIGHT]