[RIGHT]خان پور ڈیم سے نکل کر جلد ہی پیشاور ہائی وے پر چڑھ گیا,اس پر بائیک چلائی تو قدرےسکون ہوا،ہموار روڈ
پر بائیک چلانے کا مزہ ہی کچھ اور ہے،پیشاور ہائی وے پر جس رفتار سے دوسری گاڑیاں دوڑ رہی تھیں اسی
رفتار سے بائیک دوڑائی، اور تقریبا آدھ گھنٹے ،بعد میں پنڈی میں داخل ہوگیا،مجھے پنڈی ریلوے اسٹیشن کا راستہ
معلوم نہی تھا،اندازے سے ایک جگہ رک کر ایک صاحب سے پوچھا تو ان کی گائیڈینس کے حساب سے پنڈی
سٹیشن چند منٹ کی دوری پہ ہی تھا،ان کی ہدایت کے مطابق بائیک موڑ کر پانچ منٹ میں پنڈی کے ریلوے سٹیشن
پہ پہنچ گیااور بائیک سیدھی بکنگ آفس کے دروازے پر پارک کی،معلومات لینے پر پتہ چلا کہ سامان کی بکنگ
چوبیس گھنٹے ہوتی ہے بغیر کسی چھٹی کے،صرف عید پر چھٹی کی جاتی ہے، یہ خبر میرے لئے خوشخبری ہی
تھی کہ بالاکوٹ سے پنڈی کے پورے راستے اس اندیشے میں مبتلا رہا تھاکہ کہیں بکنگ آفس بند نہ ہو،اس صورت
میں مجھے ایک اور دن رکنا پڑتا پنڈی میں۔جب اس طرف سے اطمینان ہوگیا تو ایک قلی کو بائیک کی نگرانی کا
کہہ کر ٹکٹ بکنگ آفس چلاگیا کیوں کہ میرے پاس واپسی کاٹکٹ نہ تھا،وہاں پہلی دستیاب گاڑی خیبر میل تھی جس
کے پنڈی آنے کا ٹائم رات دو بجے تھا،میرے پاس چوائس تو تھی نہی،جو ہے جیسا ہے کی بنیاد پر بزنس کلاس کا
ٹکٹ لے لیا،وہاں سے واپس بائیک پر آیا، پہلے یہ خیال تھا کہ بائیک ابھی بک کروادی جائے، پھر خیال آیا کہ ہوٹل
کیسے ڈھنڈو گے؟سامان کو گھسٹتے گھسیٹتے؟ چناچہ بائیک سٹارٹ کی اور ریلوے اسٹیشن کے قریب واقع بازار
میں ہوٹل کی تلاش شروع کردی، جلد ہی ایک مناسب سا ہوٹل مل گیا۔ یہاں ایک بات کہنا چاہوں گاکہ شہر کےلوگوں
کی ڈیلنگ اور شمالی علاقہ جات کے لوگوں کی ڈیلنگ میں زمین آسمان کا فرق ہے،ہوٹل میں نے یہاں لیا اور ہوٹل
وہاں شمالی علاقہ جات میں لیتا رہا ہوں،بہت فرق محسوس ہوا۔ کمرہ لیکر جو سب سے پہلا کام کیا وہ ان
انڈرگارمنٹ سے نجات حاصل کی جو سرد علاقوں کے لئے تھے،اور جتنی راحت مجھے ملی اس کو لفظوں میں
بیان نہی کیا جاسکتا،شام تک کمرے میں آرام کیا،مغرب سے ایک گھنٹہ پہلے نیچے اتر کر بائیک سےاسکی ۔
ایکسیسریز کو اتارا،اسے ریلوے استیشن لے جاکربک کروادیا،،خیبر میل نے رات دو بجے آنا تھا اسلئے ایک قلی
سے بات کر لی کہ رات کو وہ میرے ہوٹل آکر میرا سامان اٹھا لے، ہوٹل کا فاصلہ ریلوے اسٹیشن سے کچھ زیادہ
نہ تھا لیکن بائیک کا سامان اتر کرکافی زیادہ ہوگیا تھا اور مجھے ہیلپ کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔
اس کام سے فارغ ہوکر اب میں واقعی فارغ تھا،ریلوے اسٹیشن کے بازار میں مٹر گشت کرتا رہا شام کی چائے
وہیں ایک ڈھابے پہ پی،مغرب کی نماز بھی وہیں بازار میں ایک مسجد میں ادا کی،نماز کے فورا بعد کھانے سے
بھی فراغت حاصل کر لی،اور کمرے میں آکر الارم لگا کر سو گیا،اس ایک دو گھنٹے کی نیند نے کافی فریش
کردیا،سامان میں پہلے ہی باندھ چکا تھا،رات ایک بجے اس قلی نے آنا تھا،اس طرح ڈیڑھ بجے تک میں اسٹیشن پہ
تھا،سوا دو بجے خیبر میل آگئی اور یوں پنڈی کو الوداع کہا۔
رات دو بجے پنڈی اسٹیشن کا منظر
پنڈی اسٹیشن پر پیکنگ کے بعد، میری بائیک
ایک اور بائیک جو مجھے اچھی لگ رہی تھی
[/RIGHT]