[RIGHT]اصل سفر کی روداد سے پہلے ۔۔۔۔۔
کچھ تذکرہ اس سفر کا جو محرک بنا اس سفر کا ۔
کوئی ڈھائی برس قبل کے ایک جمعے یعنی میری ہفتہ وار چھٹی کے دن کا قصہ ہے۔ جمعے کی نماز پڑھ کر آیا
تو باہر آسمان پر چھائے ہوئے بادل میرے اندر کے موسم پر اثر انداز ہو چکے تھے۔ رم جھم کرتی پھوار شہرپر تو
نہیں برسی البتہ میرے احساسات پر برس چکی تھی ۔
"چلو یار کہیں لانگ ڈرائیو پر چلتے ہیں "
میں نے گھر میں داخل ہوتے ہی اپنی ہم سفر سے کہا۔ بنا کسی پلان کےاٹھے اور گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔ میں
نے شاہراہ فیصل کی طرف گاڑی موڑی تو ہم سفر بولی کہاں ؟
"نیشنل ہائی وے سے حیدرآباد چلتے ہیں،سپر ہائی وے سے پلٹ آئیں گے۔"
میں نے جواب دیا
"رات بہت دیر نہیں ہو جائیگی"
ہمسفر کے چہرے پر تشویش تھی۔
میں نے کہا کہ سپر ہائی وے پر پہنچنے سے پہلے رات نہیں ہو گی اور سپر ہائی وے کی تو خیر ہے۔
گھڑی پر نظر ڈالی سوئیاں 3 کو کراس کر چکی تھیں۔ گرمیوں کے دن گرم تو بے شک ہوتے ہیں لیکن اچھی بات
یہ ہوتی ہے کہ دن کی روشنی کو دیر تک آپ کی دسترس میں رکھتے ہیں۔ مغرب دیر سے ہونے کے سبب
ساڑھے7 بجے تک تو دن کا اجالا ہمارے ساتھ ہی ہو گا۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا اور شاہراہ فیصل پر پہنچ کر
ٹہلنے والی رفتار کو دوڑنے والی میں بدل دیا کیونکہ اب پلان بن چکا تھا۔ ذہن میں خالی میدان لے کر نکلا تھا لیکن
اب اس میدان میں نیشنل ہائی وے بچھ چکی تھی۔ ٹھٹھہ سے آگے کینجھر جھیل تک کئی بار جانا ہوا تھا لیکن اس
سے آگے کے سفر کا یہ پہلا اتفاق تھا۔ آگے سڑک کی صورتحال کیسی ہو؟ کوٹری تک مغرب تک پہنچ سکیں گے
یا نہیں ؟ بس ذہن اسی سوچ میں تھا۔ یہی ایڈونچر ازم ہوتا ہے جو مشینی زندگی سے اکتائے ہوئے اونگھتے ہوئے
میرے ذہن کوبیدار کر کے نئی جلا بخشتا ہے۔ میں اپنی انہی سوچوں کے تریاق سے اپنے ذہن میں سرایت کرنے
والے بوریت کے زہر سے چھٹکارا حاصل کرتا جاتا تھا اور مسکراتا جاتا تھا۔ گاڑی شہر کی آبادی کو پیچھے
چھوڑتی جاتی تھی۔ ملیر گیا،لانڈھی قائد آباد گزر گیا،اسٹیل ملز کے قریب سے گزرے ، ریلوےلائن کا پل عبور
کیا،دھابیجی کے قصبے کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ گھر سے لنچ کیے بنا نکل آئے تھے ،بھوک بھی شدت سے لگنا
شروع ہو گئی تھی چنانچہ گھارو کے ایک چھوٹے سے ہوٹل کے عقبی حصے پر بنے ہوئے گھاس کے لان پر
چارپائی پر بیٹھے،اور سہ پہر کا سہرانہ کھا یا۔ جہاں بیٹھے تھے وہاں ساتھ ہی لہللاتے سر سبز کھیتوں کا سلسلہ
حد نظر تک دکھائی دے رہاتھا۔آسمان پر سرمئی بادل چھائے ہوئے تھے۔ سورج کے ڈھلنے کے ساتھ ساتھ ہوا میں
گرمی کی تمازت کے بجائے خوشگوار ٹھنڈک کا احساس پیدا ہونا شروع ہو گیا تھا۔ یہاں بیٹھا تھا تو سوچتا تھا کہ
کتنی دفعہ کینجھر جھیل کنارے آچکے لیکن کبھی توفیق نہ ہو سکی کہ لانڈھی کے قریب ہی الٹے ہاتھ پر واقع
چوکنڈی کے آثار قدیمہ دیکھتے یا دھابیجی کے قصبے سے آگےبڑھنے کے بعد سیدھے ہاتھ پر بھنبور کے تاریخی
مقام کی طرف مڑتی سڑک پر ہی کبھی گاڑی موڑ لیتے۔ گھارو کے اس ہوٹل سے کھانا کھا کر اٹھے تو راستے
میں گجو کے چھوٹے سے قصبے کے قریب نیشنل ہائی وے کے ساتھ سے گزرتی ہوئی گجو نہر کے کنارے چند
منٹوں کیلئے ٹہرے۔ بنا پلان کے نکلے تھے اس لئے کیمرہ ساتھ نہ تھا۔ کچھ تصویریں اپنے موبائل فون کے کیمرے
سے ضرور لیتے رہے۔ مجھے یہ تو معلوم تھا کہ نیشنل ہائی وے پر چلتے رہو تو کینجھر جھیل کیلئے مڑنے والے
مخصوص پکنک پوائنٹس سے کچھ آگے یہ شاہراہ بالکل کینجھر جھیل کے کنارے کو چھو کر گزرتی ہے۔ یہ شاہراہ
ہمیں کینجھر جھیل کے کنارے لے آئی ۔ مجھے کینجھر جھیل کا یہ کنارا بہت پسند آیا۔ کچھ وقت جھیل کنارے بتایا۔
اب باقاعدہ شام ہو چلی تھی آسمان پر چھائے بادلوں نے شام کے سایوں کو مزید گہرا کر دیا تھا۔ عصر کی نماز
یہیں ایک چھوٹی سی مسجد میں پڑھی۔ اب نیشنل ہائی وے یعنی این 5 پر شروع ہونے والا آگے کا سفر میرے لیے
نیا تھا۔ ہمیں سورج غروب ہونے کے بعد کے اندھیروں سے نمٹنے سے پہلے پہلے کوٹری تک پہنچنا تھا۔ سڑک کی
حاللت بہت بہتر تھی البتہ آسمان پر چھائے بادلوں میں اب کچھ کمی آتی جارہی تھی۔ سورج آہستہ آہستہ مغرب میں
زمین سے ملنے کیلئے اتر رہا تھا۔ شام ہو جانے کے باعث خوشگوار ہوا چل رہی تھی۔ راستے میں دور دور تک
اب کچھ پہاڑیاں نظر آرہی تھیں۔ کوٹری پہنچنے سے کچھ قبل ہی سورج ان پہاڑیوں سے اٹھکیلیاں کرتا ہوا زمین کی
آغوش میں اتر گیا۔ لیکن مغرب کے بعد کی سرمئی شام کے رات کے اندھیروں میں بدل جانے سے پہلے پہلے ہی
ہم کوٹری کے قریب پہنچ چکے تھے۔ ایک چھوٹے سے ہوٹل سے ملحق مسجد میں ہم نے نماز مغرب ادا کی۔ اور
ہوٹل سے ایک ایک کپ چائے پی۔ میں پھر سوچتا تھا کہ کینجھر جھیل اور کوٹری کے درمیان ایک سڑک دائیں
طرف جھرک کے قصبے کیلئے مڑتی ہےجوقصبہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی جائے پیدائش ہے۔
خواہش تھی کہ سر پٹکتی تھی کہ گاڑی ادھر موڑوں لیکن اجنبی راستے پر وقت کی کمی اور رات سر پر آپڑنے
کا خدشہ مجھے گاڑی ادھر موڑنے پر آمادہ نہ کر سکا۔ یہی سوچا کہ پھر کبھی۔
کوٹری سے نکل کر دریائے سندھ عبور کرکے حیدرآباد پہنچے ۔پکا قلعہ کے چوک پر گول گپے اور ربڑی کھائی۔
پھر جامشورو کے راستے رات کی تاریکی میں دوبارہ دریائے سندھ کا پل عبور کیا۔ سوچتے تھے کہ رات نہ ہوتی
تو کچھ وقت دریا کے کنارے ریت پر چہل قدمی کرتے۔ کچھ دیر میں ہم سپر ہائی وے پر واپسی کا سفر طے کر
رہے تھے۔ نوری آبادکے ایک پٹرولپمپ پر واقع مڈوے گرل کے سامنے بنے چھوٹے سے خوبصورت پارک میں
رات کے وقت چلتی آزاد ہوا میں کچھ دیر بیٹھ کر خوب گہرے گہرے سانس لیے اور پھر دوبارہ زندگی کی معمول
کی مصروفیات میں خود کو قید کرنے یہاں سے روانہ ہو گئے۔ میں راستے میں سوچتا تھا کہ کبھی صبح جلدی
نکلیں گے اور اسی سفر کو پھر دہرائیں گے اور جو حسرتیں اور خواہشات رہ گئیں انہیں پورا کریں گے۔
اپنےاس حسرتوں بھرے سفر پر موبائل فون کے کیمرے سے لی گئی کچھ تصویریں ۔۔۔۔
[/RIGHT]