[right]
کھانے کے بعد ہم کمرے سے نکل کر دوبارہ برآمدے میں آ گئے۔ اسی اثنا میں ایک نوجوان گھر میں داخل ہوا۔
نوجوان ہمارے میزبان کا بھانجا تھا۔ ہم نے روانگی کے لئے اجازت طلب کی لیکن ہمارے دریا دل میزبان کی
خاطر داری کسی طور ختم ہونے میں نہ آتی تھی۔ پہلے صرف ایک میزبان کی پیشکشیں تھیں اب میزبان اور
ان کا بھانجا مل کر ہمیں اپنے ساتھ چائے پینے کے پر زور اصرار میں جکڑتے تھے سو ہم ایک بار پھر اپنے
میزبانوں کی محبتوں کی زنجیروں میں جکڑے گئے۔ ہماری رضامندی پر دونوں کی خوشی قابل دید تھی۔ چائے
غالباً کھانے کے فوراً بعد ہی تیار کر لی گئی تھی اس لئے فوراً آ بھی گئی۔
سہ پہر کے ڈھائی بج چکے تھے جب ہمارے دریا دل میزبان اور ان کے بھانجے نے شاہراہ قراقرم کے کنارے
کھڑی ہماری گاڑی تک آ کر ہمیں رخصت کیا۔ اس چھوٹے سے قصبے کے سنسان بازار سے بشام کی طرف روانہ
ہوتے وقت ہم خالی ہاتھ نہ تھے، ناقابل فراموش شنگ کی خوشگوار یادیں ہمارے سنگ تھیں۔ میں پلٹ کر پیچھے دیکھتا
تھا ،ہمارے دونوں میزبان دور تک ہمیں ہاتھ ہلاتے تھے۔
ہم نے کچھ ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ وہ نالہ ہمارے سامنے آگیا جس کا ذکرہمارے میزبان نے کیا تھا۔ نالے کا پانی
سڑک پر سے بہتا ہوا گزر رہا تھا لیکن اس کی گہرائی زیادہ نہ تھی۔ اس گرم سہ پہر میں قصبے کے چند نوجوان اور
لڑکے سڑک کے بائیں جانب پہاڑ کی بلندی سے اترتے نالے کے چوڑے پاٹ میں موجود چھوٹے بڑے پتھروں کے
بیچ بہتے ہوئے ٹھنڈے پانی سے نہا کر لطف اندوز ہو رہے تھے جبکہ سڑک پر بہتی اس گنگا کا بھرپور فائدہ اٹھاتے
ہوئے ایک شخص اپنی گاڑی دھونے میں مصروف تھا۔ نالے کو عبور کر کے آگے بڑھے تو بائیں طرف پہاڑ کے
ساتھ بلند ہوتے تہ در تہ درختوں میں گھرے سر سبز کھیتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا جن کو نالے کا پانی سیراب کرتا تھا ۔
لہلہاتے کھیتوں کی اوپر والی تہوں سے پانی چھوٹی چھوٹی آبشاروں اور نالوں کی صورت بہ کر نشیب والے کھیتوں
میں گرتا تھا۔ تھا کوٹ سے شنگ تک کے خشک سفر کے بعد یہ سبزہ اور پانی کی فراوانی آنکھوں کو تراوٹ بخشتی
تھی۔ کھیتوں کا یہ سلسلہ کچھ ہی دوری تک ہمارے ساتھ رہا ،جہاں اس نالے کے پانی کی رسائی کا اختتام ہوا وہیں یہ
لہلہاتے کھیت بھی ہمارا ساتھ چھوڑ گئے۔ شاہراہ کی پھر وہی کیفیت تھی جو تھاکوٹ سے شنگ کے درمیان تھی۔
تقریباً 3 بجے ہم بشام کی حدود میں داخل ہوئے۔ شاہراہ کے دونوں اطراف آبادی اور درختوں کا سلسلہ شروع ہوا،سڑک
کی حالت بھی کچھ بہتر ہوئی۔ دن کی روشنی میں بشام کو دیکھنے کا یہ دوسرا موقع تھا جو ہمیں 30 سال کے طویل
عرصے بعد ملا تھا۔ کچھ ہی دیر میں بشام کے پر رونق بازار کے درمیان وہ چوک ہمارے سامنے تھا جہاں سے ایک
سڑک مینگورہ کے لئے بائیں طرف مڑ رہی تھی اور شاہراہ قراقرم کی بہ نسبت خاصی بہتر دکھائی دے رہی تھی ۔
اس چوک سے پرے دریا کے ساتھ ساتھ جن پہاڑوں کے درمیان سے ہمیں گزرنا تھا وہاں آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔
جس ٹوٹی پھوٹی شاہراہ سے ہوتے ہوئے ہم تھا کوٹ سے یہاں تک پہنچے تھےوہ اس سے بھی زیادہ بد تر حالت اختیار
کر کے بشام کے اس بازار سے ہوتی ہوئی دائیں سمت جا رہی تھی۔ اس چوک کو دیکھ کر مجھے 1984 کےاگست
کا وہ منظر یاد آگیا جب میں اور میری ہمسفر مینگورہ سے براستہ خواص خیلہ گلگت جانے کیلئے سفیدرنگ کی فورڈ
ویگن میں دوپہر کے ساڑھے بارہ بجے یہاں پہنچے تھے۔ اس وقت میری ہم سفر کو زندگی کی ہم سفر بنے بمشکل
پندرہ بیس دن ہوئے تھے۔ وادی سوات میں بحرین ،کالام، مہوڈھنڈ، متیتان اور گبرال کی سیر کرتے ہوئے جب ہم یہاں
پہنچے تھے تو بشام کا یہ بازار آج کے شنگ کے بازار سے بھی زیادہ مختصر تھا۔ گلگت جانےکے لئے نیٹکو کی
ایک بیڈ فورڈ بس چوک پر واقع ایک چھوٹے سے ہوٹل کے پاس مینگورہ سے آنے والی ہماری ویگن کی آمد کی منتظر
تھی تاکہ گلگت جانے کے لئے کچھ مزید مسافروں کو بھی اپنے ہمراہ لے چلے۔ ہوٹل کے ساتھ ہی موجود نیٹکو
کے ایک چھوٹے سے بکنگ آفس سے ٹکٹ خرید کر ہم اس بس میں سوار ہوئے تھے۔ اسی چھوٹے سے ہوٹل سے
میں نےایک روٹی پر بھنڈی کا سالن ڈلوا لیا تھا جسے ہم نے بس میں بیٹھ کر ہی کھایا تھا۔ دوپہر کے ایک
بجے ہماری بس یہاں سے روانہ ہوئی تھی۔ 30 سال قبل شاہراہ قراقرم کی حالت اس سڑک سے بہت بہتر تھی جس پر
سفر کر کے ہم مینگورہ سے یہاں پہنچے تھے۔ 1984 میں گلگت اور ہنزہ سے ہماری واپسی اور 2004 میں اسکردو
گلگت اور ہنزہ کے سفر کے دوران وہاں جانے اور واپسی کے وقت بشام سے ہمارا گزر رات کے مختلف اوقات میں ہوا تھا۔
آج کا بشام ایک چھوٹے سے قصبے سے ترقی کر کے چھوٹے سے شہر میں تبدیل ہو گیا تھا۔ دکھ صرف اس بات کا تھا
کہ پہلے عمارتیں خستہ حال اور شاہراہ قراقرم پختہ تھی، اب عمارتیں پختہ اور شاہراہ خستہ حال تھی۔ کاش بشام کی عمارتوں
کی طرح بشام کے بازار کے درمیان سے گزرتی یہ شاہراہ بھی پختہ ہوتی ۔