[RIGHT]ہوٹل کے اس سبزہ زار سے ہم 9 بجے روانہ ہوئے۔ ہوا کی ٹھنڈک آہستہ آہستہ گرمی میں بدلنا شروع ہو گئی تھی۔
لودھراں بائی پاس،چک مجاہد اور بستی ملوک سے ہوتے ہوئےہم 11بجے کے قریب ملتان شہر کے قریب سے
گزرنے والے سدرن بائی پاس پر واقع چورنگی پر پہنچ گئے۔ اس چورنگی پر این فائیو پر جانے کیلئے دائیں طرف
مڑے اور پھر تقریباً پندرہ کلومیٹر تک ہمارا سفر اسی سدرن بائی پاس پر جاری رہا۔ سدرن بائی پاس ختم ہونے کے
تقریباً چھ کلومیٹر بعد قادرپور بائی پاس شروع ہو جاتا ہے۔ ان دونوں بائی پاسز سے گزرتے
ہوئے مجھے اپنے سردیوں کے سفر میں بھی ایک دو جگہ رک کر صحیح سمت میں نہ جانے کا شک دور کرنا پڑا تھا
اور اس بار بھی میں نے درست راستے پر جانے کے باوجود اپنے بھٹک جانے کے خوف کو دور کرنے کیلئے ایک
دو جگہ رک کر معلومات حاصل کیں۔ کسی غلط راہ پر جانے کا احتمال ہو تو احتیاط کے طور پر ایسا کر لینے میں
کوئی عار نہیں۔ قادرپور بائی پاس سے ہوتے ہوئے ہم کبیروالا روڈ چوک پر پہنچے جہاں این فائیو دائیں طرف خانیوال
کیلئے مڑتی چلی گئی اور ہم اسے چھوڑ کر کبیروالا،شورکوٹ اور جھنگ کے راستے فیصل آباد جانے والی راہوں پر
چل نکلے کہ ہماری اگلی منزلوں تک رسائی کیلئے یہ نسبتاً مختصر راستہ ہے۔ دوپہر کے 12 بج رہے تھے جب ہم
کبیروالا شہر کے بھٹہ چوک پر پہنچے۔ یہاں سےجھنگ کیلئے سڑک الٹے ہاتھ کی طرف مڑتی ہے۔ کل تقریباً اسی
وقت سندھ میں انتہائی جھلسا دینے والی گرمی کا آغاز ہو چکا تھا۔ موسم یہاں بھی اب خاصا گرم ہو چلا تھا لیکن یہاں
کا درجہ حرارت سندھ کی بہ نسبت کم از کم دس سنٹی گریڈ کم محسوس ہو رہا تھا۔ لیکن ابھی دوپہر کا آغاز تھا۔ میرا
ارادہ یہاں کسی میکنک سے رجوع کرکے اے سی چلانے کی صورت میں گاڑی کے گرم ہوجانے کا مسئلہ بیان کرنے
کا تھا۔ چنانچہ اپنے دائیں ہاتھ پر ایک موٹر ورکشاپ دیکھ کر میں نے گاڑی روک دی۔ میکنک نے میرا مسئلہ سن کر
جس انداز سے انجن میں اپنی کارگزاری کاآغاز کیا اس سے میں نے اندازہ لگا لیا کہ وہ ایک سمجھدار اور ذہین شخص
ہے۔ اہلیہ گاڑی کی اس مرمت کے دوران ورکشاپ کے اندرونی حصے میں بنے ہوئے چھپر کی چھائوں تلے بیٹھی ہوئی
تھیں جبکہ میں مکینک اور اس کے ایک دو چھوٹوں کے ہمراہ دھوپ میں ہی گاڑی کا یہ مسئلہ سمجھنے اور اسے حل
ہوتا دیکھنے میں مصروف تھا۔ تقریباً آدھے گھنٹے بعد میں مکینک کے ہمراہ ایک دوکلو میٹر کے فاصلے تک گاڑی کی
ٹرائی کیلئے گیا۔ اس دوران میکنک نے مجھے ایک اہم بات یہ بتائی کہ گاڑی کے اے سی کو فل کے بجائے ایک درجہ
کم رکھا جائے۔ اس طرح ٹھنڈک بھی بہتر ہو گی اور گاڑی کے گرم ہونے کا خدشہ بھی نہیں ہو گا۔ مکینک کے ہمراہ آدھا
گھنٹہ دھوپ میں کھڑے رہ کر مجھے اندازہ ہوا کہ گرمی کبیروالا میں بھی خاصی شدت اختیار کر چکی ہے کیونکہ اس
آدھے گھنٹے کے دوران میں خاصی حد تک پسینے سے شرابور ہو چکا تھا۔ گاڑی کے کام اور پھر اس کی ٹرائی میں
ہمارا پون گھنٹہ صرف ہو چکا تھا۔ اگر گاڑی کا اے سی آگے کے سفر میں ہمیں پریشان نہ کرے تو یہ پون گھنٹہ یہاں
صرف کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔ میکنک ذہین اور سمجھدار ہونے کے ساتھ ساتھ مہربان بھی تھا اوراس مہربانی
کا مظاہرہ اس نے اس وقت کیا جب ہماری مجبوری کا فائدہ اٹھا کر ہم سے منہ مانگی اجرت لینے کے بجائے ہمیں اپنا
مہمان اور مسافر گردانتے ہوئے صرف دو سو روپے اجرت طلب کی اور وہ بھی ہماری مرضی پر چھوڑا کہ اگر ہم
اس کو بخوشی یہ اجرت دینا چاہیں تو دیں ورنہ صرف دعائیں دے کر روانہ ہو جائیں۔ سو ہم نے اس مہربان مکینک کو
دعائوں کے ساتھ ساتھ دو سو روپے اجرت بھی بخوشی ادا کی اور کبیر والا کے اس بازار سے پون بجے روانہ ہو گئے۔
اے سی اب چلا لیا گیا تھا۔ مست پور اور چوپڑ ہٹہ سے گزرنے کے بعد ہم پہلے سندھنائے کینال کے پل سے گزرے اور
اس کے تھوڑی ہی دیر بعد دریائے راوی کا پل عبور کیا۔ چھوٹے چھوٹے قصبوں سے گزرتے ہوئے ہم راستے بھر
اسکولوں اور کالجوں سے یونیفارم پہنے نکلتے ہوئے بچوں اور بچیوں کو دیکھتے رہے کہ کس طرح اس شدید گرمی
میں دور دراز تک پیدل اپنے بیگز اٹھائے چلے جا رہے تھے۔میں سوچتا تھا کہ دیہات کی یہ پر مشقت زندگی انہیں ان
سونے جیسے بچوں کوکس طرح کندن بنا دیتی ہے۔ سڑک کے دونوں اطراف بار بار درختوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا
جس کے باعث سڑک پردھوپ اور چھائوں دونوں موجود رہتے تھے۔ اسکولوں کے یہ کم عمر بچے بچیاں بھی دھوپ
کی تمازت سے بچنے کیلئے ان درختوں کی چھائوں میں چند لمحوں کیلئے رک کر سستاتے دکھائی دیتے تھے۔ ہمارا
اے سی اب صحیح چل رہا تھا اور گاڑی بھی زیادہ گرم نہیں ہو رہی تھی۔ پنجاب کی سڑکوں کے حوالے سے ہمیں ابھی
تک کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا لیکن شاید ہمارے اس پر سکون سفر کو خود ہماری ہی نظر لگ گئی۔
راستے میں آنے والی ایک نہر کے پل کا تعمیراتی کام جاری تھاجس کے باعث ہمیں نہر کے ساتھ ساتھ بنے ہوئے کچے
راستے سے ہو کر تقریباًایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک دوسرے پل کے ذریعے پہلے اس نہر کو عبور کرنا تھا
اور پھر دوسرے کنارے کے ساتھ ساتھ بنے ہوئے کچے راستے سے ہو کر واپس جھنگ کی طرف
جانے والی اس پختہ سڑک تک پہنچنا تھا۔ اس کچے اور انتہائی ناہموار اونچے نیچے راستے پر دیگر گاڑیوں اور بسوں
کی آمدو رفت بھی جاری تھی جس کے باعث گردو غبار اور دھول اس قدر اڑ رہی تھی کہ بسا اوقات راستہ ہی
نظروں سے اوجھل ہوجاتا تھا ۔ دو ڈھائی کلومیٹر کا یہ فاصلہ طے کرنا انتہائی دشوار ہو گیا تھا۔ میں یہ راستہ طے
کرتا تھا اور دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کرتا تھا کہ کبیروالا میں گاڑی کے اے سی کا کام کروا لینے کی وجہ سے ہم
اس وقت اے سی چلا کر شیشے بند کئے بیٹھے تھے۔ اگر یہ مسئلہ حل نہ ہوا ہوتا تو ہم اس گرد اور دھول میں اٹ کر اب
تک بھوت بن چکے ہوتے۔ اور اگر بغیر اے سی چلائے اتنی شدید گرمی میں شیشے بند کر تے تو پگھل کر بہتے ہوئے
اس ساتھ ساتھ بہتی نہر میں شامل ہو چکے ہوتے۔ بے شک غیب کا علم صرف اللہ ہی کے پاس ہے اور بے شک
یہ اس کا اپنے بندوں پر بڑا کرم ہے کہ وہ ان کو بروقت اور درست فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرماتا ہے۔ گاڑی
مسلسل پہلے اور دوسرے گیئر میں چل رہی تھی لیکن اے سی چلانے کے باوجود درجہ حرارت بتانے والی سوئی
سرخ نشان کے قریب نہیں جارہی تھی۔ اللہ کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ دل سے کبیروالا کے اس نیک اور مہربان
میکنک کیلئے دعائیں بھی نکل رہی تھیں۔ دو ڈھائی کلومیٹر کا یہ مختصر فاصلہ تقریباٍ بیس منٹ میں طے ہوا ۔ ہم اب دوبارہ
جھنگ جانے والی پختہ سڑک پر تھے۔ کوثر آباد،بستی حیدرآباد،شورکوٹ ،قائم بھروانہ اور حویلی بہادر شاہ کے قصبوں
سے گزرتے ہوئے ہمارا سفر جاری رہا۔ اپنے سردیوں کے سفر کے دوران ہم سے ایک غلطی یہ ہوئی تھی کہ فیصل آباد
جانے کیلئے ہم نے اس راستے کا انتخاب کیا تھا جو جھنگ شہر کے درمیان سے ہو کر گزرتا ہے جس کی وجہ سے
شہر کے رش میں پھنس کر ہمارا خاصا وقت ضائع ہو گیا تھا۔ اس دفعہ میں نے گوگل کے نقشے پر زیادہ دماغ سوزی
کر کے جھنگ شہر سے بچ بچا کر نکلتے ہوئے نیو جھنگ بائی پاس کا سراغ لگا لیا تھا کہ جو ہمیں جھنگ سے
فیصل آباد جانے والی سڑک کے ایک چوک پر پہنچا سکتا تھا۔ سو جھنگ شہر سے کافی پہلے ہم اس جھنگ بائی پاس
پر دائیں طرف مڑ گئے۔
دوپہر ڈھائی بجے کے قریب ہم اسی جھنگ بائی پاس پر واقع ایک چھوٹے سے ہوٹل پر نماز ظہر اور لنچ کےلئے رکے۔
گاڑی سے اترے تو گرمی کی شدت کا صھیح معنوں میں اندازہ ہوا۔ ہوٹل سے متصل ہی ایک بغیر چھت کی چھوٹی
سی مسجد تھی۔ جس کے ساتھ ہی کھلے آسمان تلے چھوٹا سا وضو خانہ بھی تھا۔ میں وضوخانے کے قریب تک گیا
لیکن سورج کی تپش اس قدر زیادہ تھی کہ اس تپتی دھوپ میں لوہے کے پائپ میں موجود کھولتے ہوئے پانی سے
وضو کرنے کی ہمت نہ ہو سکی چنانچہ ہوٹل کے اندر بنے ہوئے واش بیسن کو ہی وضو کیلئے استعمال کیا۔
[/RIGHT]