عزیز دوستو شوگراں کا سفر ہمارے لیے ایسے ہی ہے جیسے پیاسے کے لیے کنواں گرمیوں کا موسم اور شوگراں کا حسیں موسم کیا بات ہے
اس سفر میں میرے ساتھ میرے ۲ بھتیجے نویدغوری اور نعمان غوری اور ایک انکا کزن رضوان بیگ شامل تھے۔
شوگراں پہنچ کر ایک کراچی کی فیملی بھی ہمارے ساتھ شامل ہوگئی تھی۔
جمعہ کی رات کو ہم لاہور سے نکلےجنرل بس سٹینڈ سے راولپنڈی کے لیے کوسٹر آسانی سے مل گئی ہم نے لاہور سے ہی چار سیٹیں کروا لی کیونکہ بیگ صاحب نے گوجرانوالہ سے گاڑی میں سوار ہونا تھا۔
ڈیڑھ کے قریب بیگ صاحب بس میں سوار ہوئے تو ہلکی پھلکی گپ شپ کے بعد ہلہ گلہ شروع ہو گیا اور اسی طرح جہلم کے قریب پہنچ کر آدھے گھنٹے کا ریسٹ کیا اور فجر کی نماز بھی ادا کی اور پھر عازم سفر ہوئے۔صبح چھ کے قریب راولپنڈی پہنچ گئے اور ناشتہ کیا جس میں پراٹھہ آملیٹ اور چائے نے نہایت مزہ دیا۔
اس کے بعد سوچا کہ آگے کے لئے کیا پروگرام بنایا جائے اور طے یہ ہوا کہ پیر ودھائی سے لوکل وین سے مانسہرہ جایا جائے۔اسی دوراں ہلکی بارش شروع ہوگئی بارش کے دوران کے کے ایچ پر سفر انتہائی پر لطف رہا کوئی گیارہ کے قریب ہم لوگ مانسہرہ پہنچ گئے
مانسہرہ پہنچ کر سوچا چلیں لوکل وین پر چلا جائے پر بیگ صاحب کا کہنا تھا کہ ٹیکسی کرایہ پر لی جائے اور پھر یہی کیا گیا۔ٹیکسی والوں سے ریٹ پر تکرار کا دور چل پڑا اور آخر کا ایک بندے سے ہماری بات پکی ہو گئی ۔سولہ سو میں ڈرائیور مان گیا کہ شوگراں تک جاںا ہے۔
کچھ دیر بعد ہم مانسہرہ سے نکل پڑے اور جابہ پاس پر پہنچ کر راجا صاحب کا گھرآگیا اور ان کا کہنا تھا کہ لنچ ان کے گھر پر کیا جائے بڑی مشکل سے اس کو منع کیا اور پھر وہاں سے آگے روانہ ہوئے۔ہم راجا صاحب(ڈرائیور)کی مہمان نوازی سے بڑے متاثر ہوئے۔
لنچ اور دریائے کنہار کا مزہ کرنے کے لیے ہم نے کنہار ویو ہوٹل کا انتخاب کیا اور گاڑی رکوالی اور اب لاہوریوں کی مہمان نوازی کا ٹائم تھا اور اللہ کے فضل سے ہم اس میں کامیاب بھی ہوئے۔
روانگی کے تھوڑی بعد ہم تاریخی شہر بالاکوٹ پہنچ گئے۔بالاکوٹ کی ہسٹری تو سب کو معلوم ہے اس لیے یہاں کہنے کے ضرورت نہں ہے۔تھوڑی دیر کے لیے سید احمد شہید کے مزار پر حاضری دی اورپھر بازار کی سیر کی دریا پر کچھ تصویریں بنائیں۔
روانگی کے فوری بعد بالاکوٹ سے نکلتے ہی ایسی خطرناک قسم کی چڑھائی ہے کہ پہلی دفعہ کے سفر کرنے والوں کے دل رک جاتے ہیں۔ کچھ اوپر جا کہ ہم نے شہر کی جانب دیکھا اور دور بہت دور بہت سہانا شہر اور کچھ نیلے نیلے مکان نظر آئے جو ہمیں آٹھ اکتوبر کا ہولناک دن یاد کروا گئے۔ جس جگہ ہم کھڑے تھے اس سڑک پر بھی کچھ بڑی بڑی دڑاڑیں نظر آئیں جو اس زلزلے کی باقیات میں سے تھیں راجا صاحب کا بقول اب تو سڑک کافی بہتر نظر آرہی ہے۔
اسی طرح سفر جاری رہا کہں رکے کہیں چل پڑے اور نماز ظہر کا وقت آگیانماز کے لیے ایک نہایت عمدہ مسجد میں نماز ادا کی جو کہ ایک سڑک کنارے بہت بڑی چٹان پر واقع تھی۔
نماز ظہر ادا کرنے کے بعد سفر شروع کیا تو تھوڑی ہی دیر میں ہم لوگ کاغان ویلی کے مشہور مقام کیوائی پہنچ گئے یہاں سے ہمیں شوگران کے لیے کاغان روڈ سے الگ ہونا تھا۔کچھ دیر کے لیے ہم یہاں رکے اور تصویریں بنایئں اور چشمے کے ٹھنڈے ٹھار پانی سے ہلہ گلہ کیا اور شوگراں کے لیے روانہ ہوگئے۔ابھی چند کلومیٹر کا سفر ہی کیا تھا کہ خطرناک قسم کی چڑھائی پر سوزوکی مہران کی بس ہوگئی اور راجا صاحب نے ہمیں اترنے کی درخواست کی اور خالی گاڑی کو آگے بڑھایا اور ہم پھر سوار ہوئے تھوڑا آگے جاکے یہئ کیفیت دوبارہ آئی تو راجا صاحب نے ہم میں سے دو کو شوگراں چھوڑنے جانا پڑا اور واپسی پر باقی دو کو پک کیا اور شوگراں ڈراپ کیا اور آخر کار ہم لوگ شوگراں پہنچھے تو مغرب کا ٹائم ہونے والا تھا ہوٹل کی تلاش شروع کی تو راجا صاحب نے اپنے کسی جاننے والے کے ہوٹل میں ہمیں ایک بہت پیاری سی ہٹ لے دی نہایت کم پیسوں میں۔ ہم نے سامان ہٹ میں چھوڑا اور نکل پڑے شوگراں میں گھومنے۔
میں تو پہلے بھی کئی دفعہ شوگراں آچکا تھا اس لیے میری کوشش تھی کہ اس جگہ کی تلاشی لی جائے جس جگہ پہلے نہ آیا جا چکا ہو لیکن ساتھیوں کا کہنا تھا کہ پورا شوگراں سرچ کرنا ہے پہلے ہم ٹی ڈی سی پی کے لان میں رکے اور خوب انجوئے کیا تصویروں کے ساتھ ساتھ لاہوریوں کے ساتھ مل کر خوب فٹبال کھیلے۔
ڈنر کے بعد بازار کی سیر کی اور کچھ شاپنگ کی اور واپس آکر میں روم میں ٹی وی کے آگے بیٹھ گیا اور باقی لوگ باہر نکل کر اسی ٹیکسی میں بیٹھ کر ڈی جے بن گئے اور خوب بلند آواز میں لگے محلے کو گانے سنانے۔ اسی دوراں راجا صاحب نے بتایا کہ صبح سری پائے کے لیے ایک فیملی بھی تیار ہے اگر آپ مل کر انکے ساتھ چلیں توانکا اور آپکا کرایہ بچ جائے گا ۔ لہذا میں ان سے ملنے کے لیے چلا گیا اور ان کے ساتھ جانے کے لیے اوکے کر دیا اور واپس آکر ٹھنڈی رات میں سونے کے لیے لیٹ گئے اور نیند کے مزے لوٹے۔
صبح اٹھتے ہو ئے زرا دیر ہو گئی جلدی جلدی ناشتہ کیا اور ایک حیرتناک قسم کی چڑھائی کے لیے خود کو تیار کیا اور بسم اللہ پڑھ کر جیپ میں سوار ہو گئے۔ہمارے ساتھ کراچی کی ایک فیملی تھی جس میں مسٹر اینڈ مسز افتخار صاحب اور انکے دو بچے شامل تھے۔
جیپ اونچے نیچے راستوں پر چل نکلی اور ہم ہوا میں معلق ہو گئے کبھی نشست پر کبھی ہوا میں ٹک کر بیٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ سری کے مقام پر پہنچ کر رک گئے جیپ کے رکتے ہی ایسے لگا جیسے ہماری سانسیں جو رکی تھی واپس آگئیں۔
سری نہایت پرفضا مقام ہے اس جگہ پرایک ریسٹ ہاوس ہے جو شائد محکمہ جنگلات کا ہے خافی خستہ حالی کا منظر پیش کر رہاتھا۔ ایک چھوٹی سی کریانہ کی دوکان بھی موجودتھی۔ کچھ مقامی لوگ اپنے جانوروں کو لیے وہاں موجود تھے سری جھیل کا تو بس نام ہی رہ گیا تھا جھیل میں کھڑا گندا پانی ایک ناگوار سی مہک کا احساس دلا رہا تھا۔تھوڑی دیر رکنے کے بعد آگے چلنے کا ارادہ کیا تو جیپ والے صاحب گاڑی کو زرا آگے لا چکے تھے اور نیچے سے اوپر جانے کی لیے سیدھے راستے کی بجائے خطرناک ڈھلوان کا انتخاب کیا اور نوید اور رضوان میں ریس لگ گئی اور مقابلہ شروع کر دیا اور یہ جیتا کسی نے نہیں دونوں برابر آئے اور اسی کوشش میں نوید صاحب اپنے گلاسسز کہیں پھینک آئے جو واپسی چیک کرنے سے بھی نہ ملے۔
ایک بات جس کی طرف میں سب کی توجہ دلانا چاہوں گاکہ سری اور شوگراں میں انتہائی گندگی ہر سو پھیلی ہوئی تھی جو بھی دوست سیاحت کے لیے جاتے ہیں ان سے اپیل ہے کہ برائے مہربانی کچرا اور گندگی پھیلانے سے گریز کریں اور دوسروں کو بھی باز رکھیں۔ شکریہ
ایک دفعہ پھر سے ہم سفر پر روانہ ہوئے اب ہماری منزل پائے کا دلفریب مقام تھا ویسے تو شوگراں سے پائے تک سارا راستہ ہی تنگ ہے مگر سری سے آگے پائے تک کا راستہ کاقی حد تک بہتر ہے اور روڈ چوڑا ہے لیکن سری تک کے راستے میں جو تنگ مقام اور چوٹی جیسی چڑھائی آتی ہے وہ دل دہلا دیتی ہے۔
پائے پہنچ کر گاڑی رک گئی اور آگے ہمیں پیدل ہی جانا تھا جیسے ہی ہم آگے روانہ ہوئے تو معلوم ہوا کہ یہاں پر تو پورا شہر آباد ہے خیمہ ہوٹل، ڈھابے اور دکانیں سجی تھیں اور ہمیں دیکھتے ہی سب ہماری طرف لپکے اور رنگارنگ پیشکشیں کرنے لگے خیر ہم نے تو کچھ خریدنا نہیں تھا لیکن افتخار صاحب کی فیملی ناشتہ کرنے رک گئی اور ہم انتظارکرنے۔
جیسے ہی ہم چٹانوں سے آگے نکلے ہمارے سامنے مکڑا پہاڑ برف سے لدا کھڑادعوت نظارہ دے رہاتھا اور کچھ گھوڑا سوار مقامی لوگ ہمیں آفر کرانے لگے کے چلیں آپکو آگے لے چلتے ہیں لیکن ہم نے تو ہائیکنگ ہی کرنی تھی۔یہاں بھی وہی بات نظرمیں آئی کہ گندگی بے انتہا اور ہر سو کچرا پھیلا ہوا تھا کو صفائی کا انتظام نہیں تھا حالانکہ شوگراں سے نکلتے ہوئے ہی ہم سے فی کس سو روپیہ لیا گیا تھا کہ سیاحت کے لیے ہے۔پائے بھی بہترین میدان ہے ہم زرا جلدی آگئے تھے اس لیے رش بہت کم تھا اور مقامی لوگوں کے علاوہ لوگ نا ہونے کے برابر تھے۔
پائے سے واپسی پر چند لوگ آتے ہوئے نظرآئے وہ آ رہے تھے اور ہم جا رہے تھے پائے پر ہمارا قیام مختصر ہی رہا ۔شوگران پہنچے اور ہوٹل سے سامان لیا پتہ چلا کہ وہی ڈرائیورابھی ادھر ہی موجود ہے لہذا اسی کے ساتھ مانسہرہ واپس آگئےاور وہاں سے پنڈی اور پھر لاہور رات کے کوئی ایک بجے ہم لاہور پہنچ گئے اور اس طرح ہمارا یہ ٹرپ بھی اللہ کے فضل سے اپنے اختتام کوپہنچا۔
Exp P/H 2500/-