‏”سیاحوں” کو چھ مہینے کے لیے ڈیوٹی فری کار امپورٹ کی اجازت؟ واقعی؟

1 10,695

سوشل میڈیا اور میڈیا آؤٹ لیٹس پر ایک خبر گردش کر رہی ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) نے کسٹمز رولز 2001 میں مجوزہ ترامیم کے حوالے سے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔ اس حوالے سے خبروں میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ نئے قوانین کے تحت سیاح چھ مہینے کے لیے بغیر کسی ڈیوٹی اور ٹیکس کے پاکستان میں گاڑیاں امپورٹ کر سکتے ہیں، اگر وہ اعلان کریں کہ وہ پاکستان میں قیام کے دوران ان گاڑیوں کی ملکیت تبدیل نہیں کروائیں گے۔

ان میڈیا آؤٹ لیٹس کا یہ بھی کہنا ہے کہ نیا قانون سیاحوں کو پاکستان سے کسی دوسرے ملک جانے کا راستہ دینے کے لیے گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دے گا۔ امپورٹڈ گاڑیوں کی تفصیلات سیاح کے پاسپورٹ پر تحریر ہوں گی۔

سچ کیا ہے؟

ہم آپ کو اس نئی “پالیسی” کے بارے میں سچ بتانے جا رہے ہیں۔ سب سے پہلے یہ کہ ایسی کوئی پالیسی نہیں ہے کیونکہ کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا۔ سچ یہ ہے کہ یہ کوئی نیا قانون ہے ہی نہیں، بلکہ ایسی پالیسی پہلے سے موجود ہے۔ اور یہ پالیسی CARNET کہلاتی ہے، جسے CARNET DE PASSAGES بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک عالمی ادارہ ہے، جو سیاحوں کو اپنی گاڑیوں پر ایک سے دوسرے ملک بذریعہ سڑک سفر کرنے کا ڈاکیومنٹ جاری کرتا ہے۔

اس ڈاکیومنٹ کے تحت سیاح اپنی گاڑی کو خاص عرصے کے لیے کسی ملک لے جا سکتا ہے۔ پاکستان کے معاملے میں یہ دورانیہ چھ مہینے ہیں۔

پاکستان میں CARNET کا غلط استعمال

بہت سی پالیسیوں اور قوانین کی طرح پاکستان میں CARNET DE PASSAGES کا بھی غلط استعمال ہوتا ہے۔ اس پالیسی کے تحت بہت سے لوگ متحدہ عرب امارات سے گاڑی لاتے ہیں۔ چھ مہینے بعد یا تو وہ اپنی گاڑی کو بحری جہاز پر لادتے ہیں اور ایک چکر لگا کر واپس لے آتے ہیں یا پھر اپنے گھروں/گوداموں یا دیگر مقامات پر رکھتے ہیں۔ شہروں میں ایسی اب بھی سینکڑوں گاڑیاں ہیں۔

ایسے واقعات کے بعد حکومت نے سخت کارروائی کی اور ‘ٹؤرسٹ پالیسی’ کے تحت گاڑی لانا مشکل بنا دیا۔

یہ کس طرح ناقابلِ عمل ہے؟

جب کوئی پالیسی متعارف کروائی جاتی ہے تو یہ تفصیل سے ہوتی ہے اور اس میں ڈیوٹی اور ٹیکسز کو واضح کیا جاتا ہے۔ لیکن اس “نئی پالیسی” میں کسٹمز ڈیوٹی، ریگولیٹری ڈیوٹی (RD)، ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی (ACD) یا سیلز ٹیکس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ حکومت گاڑی کی شپنگ کے لیے صرف بل آف لیڈنگ (BL) میں رعایت نہیں دے سکتی۔

ہمیشہ پورے ٹیکس نیٹ پر مکمل وضاحت کی جاتی ہے اور یہ کہ یہ کسی مخصوص پروڈکٹ پر کس طرح کام کرے گا۔

اس لیے ہم صرف اتنا کہیں گے کہ “نئی ٹؤرسٹ پالیسی” میں کچھ نیا نہیں ہے۔ یہ پہلے ہی سے کاغذات میں موجود ہے۔ جس طرح کوئی فری لنچ نہیں ہوتا، اسی طرح کوئی فرق کار بھی نہیں ہوتی۔

ایک اور دلچسپ خبر یہ آ رہی ہے کہ “نئی ٹؤرسٹ پالیسی” کے تحت پاکستان میں بگاٹی شیرون آئے گی۔ اس کی تصدیق تو نہیں ہے لیکن اگر کچھ ہوتا ہے تو ہم اپنے قارئین کو بتائیں گے۔

پاکستان میں ہزاروں استعمال شدہ امپورٹڈ گاڑیاں پائیں، صرف پاک ویلز پر۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.