مہران کے خاتمے کا فیصلہ آخر بہترین فیصلہ کیوں تھا؟ 5 وجوہات

0 5,913

سوزوکی مہران لوکل مارکیٹ میں اور پاکستان میں گاڑیوں کے شوقین افراد میں ایک لیجنڈری حیثیت رکھتی ہے۔ اس کار نے چھوٹی گاڑیوں کے سیگمنٹ میں تین دہائیوں تک راج کیا ہے۔ اس کی کامیابی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اس کے مقابلے پر کوئی گاڑی تھی ہی نہیں۔ 800cc کے سیگمنٹ میں ملک میں کوئی دوسری گاڑی نہیں تھی، یہی وجہ تھی مہران کی حکمرانی کی۔ حالانکہ پاک سوزوکی نے اس کی جنریشن کو اپڈیٹ تک نہیں کیا، کوئی سیفٹی فیچرز نہیں پیش کیے، اس کی شکل و صورت میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں کی، لیکن پھر بھی یہ گاڑی مقامی خریداروں کی نمبر ایک پسند رہی۔

تین دہائیوں تک اس گاڑی کی لُک تقریباً وہی رہی، جو اس میں مینوفیکچررز کی عدم دلچسپی کو ظاہر کر رہی ہے۔ کوئی مقابلہ نہ ہونے کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ سوزوکی کو یقین ہو کہ خریدار اسے خریدیں گے ہی کیونکہ ان کے پاس کوئی دوسری چوائس نہیں ہے۔ لیکن جاپان کی استعمال شدہ گاڑیاں آنے کے بعد لوکل مارکیٹ میں اس کی سیلز پر فرق پڑا، کیونکہ جاپانی گاڑیاں زیادہ فیچرز رکھتی ہیں، زیادہ آرام دہ ہیں اور بہتر مائلیج اور سیفٹی خصوصیات رکھتی ہیں۔

‏2019 میں، تین دہائیوں کے بعد، پاک سوزوکی نے پاکستان کی اس ‘قومی’ کار کم ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس آرٹیکل میں ہم ان چار اہم وجوہات پر بات کریں گے کہ جن کی وجہ سے پاک سوزوکی نے مہران کا خاتمہ کیا اور آخر یہ ایک اچھا فیصلہ کیوں تھا۔

1۔ مہران میں سیفٹی سرے سے نہیں تھی

سوزوکی مہران بس چار پہیوں پر کچھ دھات، کچھ کپڑے اور کچھ الیکٹرانکس کا مجموعہ تھی۔ گاڑی میں سیفٹی نامی کوئی شے تھی ہی نہیں، سوائے اگلی سیٹوں پر سیٹ بیلٹس کے۔ پاک سوزوکی نے کبھی ایئربیگز، ڈسک بریکس یا ABS لگانے کی کوشش نہیں کی۔ مختصر یہ کہ مہران میں سفر کرنا ایک خطرناک تجربہ ہے اور کمپنی کو تو اسے سالوں پہلے ختم کر دینا چاہیے تھا۔

3۔ تین دہائیوں میں وہی جنریشن

ذرا سوچیں تو بہت عجیب لگتا ہے کہ سوزوکی نے تیس سالوں میں کبھی اس کی جنریشن اپڈیٹ نہیں کی، جو بہت لمبا عرصہ ہے۔ کمپنی نے صرف اِدھر اُدھر کے کچھ پارٹس تبدیل کیے، فرنٹ گرِل کا کچھ لُک تبدیل کر دیا، یا ہیڈلائٹس کی شکل، ان کے علاوہ اس گاڑی کی شکل و صورت اتنے لمبے عرصے تک تقریباً وہی رہی۔

3۔ مہران میں کوئی نئے فیچرز نہیں:

ایکسٹیریئر کے ساتھ ساتھ سوزوکی نے انٹیریئر میں بھی کوئی تبدیلی نہیں کی۔ تین دہائیوں میں مینوفیکچرر پاور ونڈوز، یا پاور اسٹیئرنگ یا باڈی کی رنگ کے سائیڈ ویو مررز انسٹال کر سکتا تھا لیکن کمپنی فیچرز سے محروم گاڑی ہی بیچتی رہی۔ یہاں تک کہ AC جیسا اہم فیچر بھی اس گاڑی کے صرف ‘ٹاپ-آف-دی-لائن ویرینٹ’ ہی میں تھا۔ پھر اس کی پرفارمنس پر بھی سنجیدہ سوالات ہیں۔

4۔ جاپانی گاڑیوں کی آمد:

جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ جاپانی گاڑیوں کی آمد نے لوکل مارکیٹ میں سوزوکی مہران کے غلبے کو نقصان پہنچایا۔ یہ گاڑیاں زیادہ خصوصیات اور فیچرز کے ساتھ تھیں، جن میں مہران سے بہتر سیفٹی، مائلیج اور کمفرٹ تھا۔ اس لیے کمپنی نے اسے discontinue کر دیا اور 660cc کیٹیگری میں جاپانی گاڑیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سوزوکی آلٹو لانچ کر دی۔

5۔ زیادہ قیمت:

2019ء میں ختم ہوتے وقت نئی مہران کی قیمت 8,60,000 روپے تھی، جو بہت زیادہ ہے، خاص طور پر اگر آپ اس کے فیچرز دیکھیں تو۔ پھر صارفین کے پاس اس بجٹ رینج میں جاپانی گاڑیوں کی کئی چوائس تھیں؛ یہی وجہ ہے کہ ملک سے مہران کو ختم کرنے کا فیصلہ اچھا تھا۔

ساتھ ہی مہران کا ہمارا تازہ ترین ریویو بھی دیکھتے جائیں:

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.