بریکنگ! کِیا سورنٹو پاکستان آ رہی ہے
ہم نے کچھ ہفتے پہلے بتایا تھا کہ کِیا پاکستان میں کِیا سورنٹو متعارف کروانے کی منصوبہ بندی بنا رہا ہے، جو ایک 3 قطاروں اور 7 سیٹوں والی یوٹیلٹی وہیکل ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب کِیا سورنٹو کے آثار واضح ہونے لگے ہیں اور ہمیں پرانی تیسری جنریشن کی سورنٹو دیکھنے کو ملے گی، انٹرنیشنل مارکیٹوں میں چوتھی جنریشن کی موجودہ گاڑی نہیں۔
حالانکہ کمپنی اِس سال پہلے ہی چوتھی جنریشن کی گاڑی پیش کر چکی ہے اور مخصوص مارکیٹوں میں اس کی سیلز شروع بھی ہو چکی ہیں، لیکن کئی غیر ملکی مارکیٹوں میں اب بھی تیسری جنریشن کی گاڑی مل رہی ہے۔ پاکستان میں آنے والی سورنٹو کی ویسے ہی کافی ہائپ موجود ہے، بس کنفیوژن یہ ہے کہ یہ چوتھی جنریشن کی ہوگی یا پرانی تیسری جنریشن کی گاڑی ملے گی۔
پاکستان میں کِیا سورنٹو CBUs:
پاکستان امپورٹ ڈیٹا کے مطابق یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کِیا لکی موٹرز کِیا سورنٹو کے تین یونٹس امپورٹ کر چکا ہے۔ دو یونٹس 3.5LV6 کے ساتھ جبکہ ایک 2.4L انجن کا ہے۔ تینوں گاڑیاں FWD ہیں۔ حالانکہ 17 ڈجٹ کا VIN ڈی کوڈ کر لیا جائے تو عام طور پر ہمیں معلومات دیتا ہے (یہ کار کے DNA کی طرح ہے)۔ میں نے کوشش کی لیکن میں اسے کریک نہیں کر سکا، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ VIN (Vehicle Identification Number) رجسٹریشن کے وقت تصدیق کے لیے مختلف ملکوں کی موٹر وہیکل ایجنسیوں کو رپورٹ کیے جاتے ہیں۔ جب کمپنیاں گاڑی پر VIN پیسٹ کرتی ہیں، اور اسمبلی سے چھوڑنے سے پہلے، وہ اسے رجسٹریشن ایجنسیوں کو رپورٹ کرتی ہیں۔ یہ تین یونٹس ہو سکتا ہے کہ اصل VIN نمبر نہ رکھتے ہوں کیونکہ یہ کمرشل طور پر فروخت/رجسٹر نہیں کی جائیں گی اور لکی موٹرز کی جانب سے مقامی طور پر CKD کی تیاری کے لیے امپورٹ کی گئی ہیں۔ ہم مقامی CKD یونٹس کی تیاری کے لیے انہیں ڈیمو یونٹس کہہ سکتے ہیں۔
VIN پر 4 سے 7 پوزیشن ہمیں کلاس/جنریشن اور گاڑی کے ماڈل کے بارے میں بتاتی ہے۔ گو کہ ہو سکتا ہے کہ VIN اصل نہ ہو لیکن ہمیں دونوں VIN پر امپورٹ ڈیٹا میں ایک ہی جیسے حروف “PGGU” نظر آ رہے ہیں جس کا مطلب ہے کہ یہ (2.4L اور 3.5L V6) ایک ہی جنریشن کی ہیں۔ چوتھی جنریشن کی سورنٹو 2.4L انجن میں دستیاب نہیں ہے، اس لیے ہم باآسانی یہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ CBU یونٹس چوتھی جنریشن کے نہیں ہیں۔ تیسری جنریشن کی سورنٹو 3.5L V6 انجن میں بھی دستیاب تھی/ہے۔
کِیا سورنٹو چوتھی جنریشن:
جی ہاں! نئی چوتھی جنریشن 3.5L V6 آپشن میں دستیاب ہوگی اور سب سے پہلے اگلے سال کے آغاز میں آسٹریلیا میں اور صرف FWD کی حیثیت سے، لیکن رائٹ ہینڈ ڈرائیو مارکیٹوں کے لیےیہ ماڈل اور 3.5L V6 ابھی تک پروڈکشن میں نہیں آئے۔ اس لیے لکی موٹرز کی جانب سے 3.5L V6 کے ساتھ چوتھی جنریشن کے CBU کی امپورٹ کے امکانات کم ہیں۔ میرے ذاتی خیال میں کہ یہ تینوں CBU ڈیمو یونٹس “تیسری جنریشن” کے ہیں۔ ویسے تو کوئی بھی دوسرا امکان کم ہے؛ ہو سکتا ہے کہ لکی نے تیسری اور چوتھی جنریشن امپورٹ کی ہے، لیکن دو مختلف جنریشنز کو امپورٹ کروانے کی کوئی تُک بنتی نہیں۔
اپنے ذہن میں رکھیں کہ ان CBUs کو اکتوبر کے تیسرے ہفتے میں کلیئرنس ملی ہے، جس کام طلب ہے کہ یہ سمندری کارگو کے ذریعے سے چند مہینے پہلے پاکستان کی جانب روانہ ہوئے ہوں گے، ممکنہ طور پر اگست 2020ء یا اس سے بھی پہلے۔ اگست میں چوتھی جنریشن کی سورنٹو کی پیداوار ابھی امریکا میں LHD کے طور پر شروع ہی ہوئی تھی جبکہ جنوبی کوریا بھی مقامی مارکیٹ کے لیے LHD بنا رہا تھا جبکہ سورنٹو RHD مارکیٹوں میں ابھی شروع بھی نہیں ہوئی تھی۔ اس سے بھی کِیا لکی موٹرز کے لیے چوتھی جنریشن کے RHD یونٹس کی دستیابی کا امکان ختم ہوتا ہے۔
ہم اگلے چند مہینوں میں پاکستان اسمبلڈ سورنٹو کی فروخت کی توقع کر سکتے ہیں، ممکنہ طور پر 2021ء کی پہلی سہ ماہی میں۔
VIN کےحوالے سے میں نے تقریباً سات سال پہلے ایک تفصیلی بلاگ لکھا تھا، اگر آپ دلچسپی رکھتے ہیں تو اسے یہاں پڑھ سکتے ہیں:
تیسری جنریشن: پاکستان کے لیے ممکنہ آپشن
اگر ہم موجودہ حالات کو تسلیم کریں اور فرض کریں کہ کِیا تیسری جنریشن کی سورنٹو ہی حاصل کرے گا، تو آئیے دیکھتے ہیں کہ تیسری جنریشن کے بارے میں کیا کچھ جانتے ہیں۔ تیسری/UM جنریشن سورنٹو ہیونڈائی-کِیا کے شیئرڈ پلیٹ فارم پر بنی ہوئی ہے جسے “Y6” کہا جاتا ہے۔ یہ بَیس پچھلی جنریشن کی ہیونڈائی سوناٹا، کِیا آپٹیما، گرینجر، تیسری جنریشن کی کارنیوَل (جیسا کہ پاکستان میں فروخت ہوئی) اور ساتھ ساتھ ہیونڈائی سانتا فی (جو کہ CBU کے طور پر نشاط نے فروخت کی) کی بنیاد بھی تھی۔
کِیا نے تیسری جنریشن کی سورنٹو 2015ء میں 2016ء ماڈل کی حیثیت سے پیش کی تھی، اور بعد میں اسے 2018ء میں فیس لفٹ بھی دیا گیا تھا۔ تیسری جنریشن کو کوریا میں ڈیزائن اور ڈیولپ کیا گیا تھا لیکن اس میں یورپی اور امریکی کِیا ڈیزائن ٹیم کا بھرپور اِن پٹ شامل تھا۔ ٹائیگر-نوز گرِل، جو کہ برانڈ شناخت ہے، کے ساتھ فرنٹ پر سوئپنگ پروجیکٹر ہیڈلیمپس نے پچھلی یعنی دوسری جنریشن کے مقابلے میں گاڑی کو بالکل نیا اسپورٹی اور پریمیم ٹچ دیا۔ رُوف لائن سی-پلر کو مزید آگے جھکاتی ہے۔ ایل ای ڈی ہیڈلائٹس بہتر ٹرِم/ویرینٹس کا حصہ ہیں اور بنیادی ماڈلز میں عام ہیلوجن کمبی نیشن لیمپس ہیں۔ مجموعی طور پر یہ ایک خوبصورت SUV ہے اور اندر اور باہر سے پریمیم لگتی ہے۔
جہاں تک پیمائش کی بات ہے تو یہ 189 انچ لمبی، 74.4 انچ چوڑی اور تقریباً 66 انچ اونچی ہے۔ اندازے کے لیے اسپورٹیج کو دیکھتے ہیں جو 176.5 انچ لمبی، 73 انچ چوڑی اور 64 انچ اونچی ہے۔ جہاں تک گراؤنڈ کلیئرنس کی بات ہے تو سورنٹو تقریباً 7.3 انچ رکھتی ہے جبکہ اسپورٹیج کی 6.7انچ ہے۔ فٹ پرنٹ کو سمجھنے کے لیے تقابل کریں تو فورچیونر 188.7 انچ لمبی، 73 انچ چوڑی اور 72.2 انچ اونچی ہے۔
کِیا سورنٹو کےمکینیکلز:
مختلف مارکیٹوں میں تیسری جنریشن کی سورنٹو مختلف انجن آپشنز میں دستیاب ہے جیسا کہ 3.3L V6، 3.5L V6، 2.4L MPI، 2L ٹربو GDI، 2L ڈیزل اور 2.2L ڈیزل۔ کِیا لکی موٹرز نے ایک 2.4L کے ساتھ 3.5L V6 بھی امپورٹ کیا ہے۔ میں باآسانی اندازہ لگا سکتا ہوں کہ پاکستانی ورژن یقیناً 2.4L MPI اِن لائن 4 انجن ہوگا۔ یہ انجن اس 2L انجن سے ملتا جلتا اور ویسا ہی ہے جو اسپورٹیج میں ہے لیکن زیادہ displacement اور کچھ معمولی فرق رکھتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس کی پاور کتنی ہوگی، لیکن یہ تقریباً 169HP@5800 اور 220NM@4000 ہوگی۔
جہاں تک 3.5L V6 کی بات ہے تو یہ انجن تقریباً 276HP اور 336NM ٹارک پیدا کرتا ہے۔ میرے خیال میں کِیا نے CBU سورنٹو اپنی ریسرچ کے لیے امپورٹ کی ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ سورنٹو کو صرف 2.4L انجن ویرینٹ میں پیش کریں۔ ممکن ہے کہ 2.4L اور 3.5L V6 دونوں ہوں، لیکن ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔
ٹرانسمیشن کے معاملے میں یہ 6اسپیڈ آٹومیٹک ہوگی۔ تیسری جنریشن کی سورنٹو ایک فرنٹ انجن فرنٹ ویل ڈرائیو گاڑی ہے جبکہ اس میں AWD بھی دستیاب ہے۔ گو کہ لکی موٹرز کا امپورٹ کیا ہوا CBU یونٹ صرف FWD ہے، لیکن ہم FWD اور AWD دونوں آپشنز کی امید باندھ سکتے ہیں۔ یہ ڈائنامیکس AWD سسٹم استعمال کرتی ہے جیسا کہ اسپورٹیج میں ہے لاکنگ سینٹرل differential کے ساتھ۔ سسپنشن کے معاملے میں یہ اسپورٹیج جیسا ہی ہے؛ میک فرسٹ اسٹرٹ فرنٹ جبکہ انڈیپنڈنٹ ملٹی لنک ریئر۔ EPS اور ڈسک بریکس اسٹینڈرڈ کے طور پر دستیاب ہوں گے اور 17 یا 18 انچ الائے ویلز کا آپشن ہوگا۔
کِیا سورنٹو کا انٹیریئر:
جہاں تک انٹیریئر کی بات ہے تو یہ فرینکفرٹ میں کِیا کی یورپی ڈیزائن ٹیم کی ذمہ داری تھی۔ یہ سادہ ڈرائیور سینٹرک کنٹرولز کے ساتھ سافٹ ٹچ مٹیریل رکھتا ہے۔ گو کہ 2015ء کے لحاظ سے یہ سادہ اور اچھا ڈیزائن تھا، لیکن چوتھی جنریشن کے مقابلے میں تیسری جنریشن میں فینسی کچھ نہیں۔ جہاں تک ڈیش بورڈ کی بات ہے تو آپ کو اسپورٹیج کے انٹیریئر کا احساس ہو سکتا ہے۔ اسپورٹیج کی طرح کِیا اسٹیئرنگ ویل کنٹرولز، سیل فون کنیکٹیوٹی، ڈوئل زون کلائمٹ کنٹرول، 7 یا 8 انچ انفوٹینمنٹ سسٹم اینڈرائیڈ/ایپل کار پلے انٹیگریشن کے ساتھ، کروز کنٹرول، رین سینسر، پاور فولڈنگ سائیڈ ویو مررز پیش کرتا ہے۔
پاور ڈرائیور اور پیسنجر سیٹ، جبکہ دوسری قطار کی سیٹوں میں 40/20/40 اور تیسری قطار میں 50/50 اسپلٹ دستیاب ہوگا۔ ہم چمڑے اور فیبرک دونوں سیٹوں اور پاور ٹیل گیٹ کے ساتھ پینورامک سن روف کے آپشن کی توقع بھی رکھ سکتے ہیں۔ جہاں تک سیفٹی کی بات ہے تو ABS، ڈاؤن ہل اسسٹ، ہل اسٹارٹ اسسٹ کنٹرول، VSC فرنٹ پر دو ایئربیگز کے ساتھ دستیاب ہوں گے۔ مجھے امید ہے کہ کرٹین ایئربیگز بھی اس پیکیج کا حصہ ہوں گے۔
تیسری جنریشن کیوں؟
اس سال کے شروع میں کِیا نے عالمی سطح پر اپنی نئی چوتھی جنریشن کی سورنٹو متعارف کروائی۔ کمپنی نے سورنٹو بالکل نئے پلیٹ فارم پر بنائی ہے کہ جو حال ہی میں پیش کی گئی گرینڈ کارنیوَل جیسا ہے۔ نئی چوتھی جنریشن کی سورنٹو عالمی مارکیٹوں میں صرف تین جگہوں پر بنائی گئی ہے، ویت نام، جنوبی کوریا اور امریکا اور اس کی ڈلیوریز ابھی مخصوص مارکیٹوں کے لیے ہی شروع ہوئی ہیں۔ یہ تمام مقامات نہ صرف لوکل مارکیٹ بلکہ کِیا کی مینوفیکچرنگ تنصیبات کی کی ضرورت بھی پوری کرتے ہیں۔
چوتھی جنریشن کے بالکل نئے ہونے کی وجہ سے کہ جس کی پروڈکشن دنیا بھر میں صرف تین مقامات پر محدود ہے، میرے ذاتی خیال میں کِیا پاکستان “چوتھی” جنریشن نہیں لائے گا بلکہ اس کے بجائے ہم مقامی طور پر اسمبل شدہ/CKD “تیسری” جنریشن دیکھیں گے کہ جو باہر ختم ہو چکی ہے۔ نئے ماڈل کی تیاری کے لیے کافی وقت درکار ہوتا ہے جس میں پلانٹ کی اپگریڈیشن، سپلائی چَین کی تیاری اور دیگر عوامل شامل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر ماڈل ابھی بیرونِ ملک جاری ہی ہوا ہے تو وہی ماڈل پاکستان میں پیش کرنا ممکن نہیں ہے۔
تیسری جنریشن بمقابلہ چوتھی جنریشن:
یہ بات ذہن میں رکھیں کہ چوتھی جنریشن کی سورنٹو کوریا کے علاوہ محدود مارکیٹوں میں ہی فروخت کے لیے موجود ہے۔ USDM ماڈل دسمبر 2020ء تک فروخت کے لیے پیش نہیں کیا جائے گا۔ البتہ یہ امریکا میں بنا ہوا ہے، جبکہ آسٹریلیا کی مارکیٹ نے حال ہی میں سورنٹو کا اعلان کیا ہے اور یہ بھی دسمبر سے پہلے فروخت کے لیے پیش نہیں کی جائے گی۔ آسٹریلیا کو سورنٹو امپورٹ کی صورت میں ملے گا۔ سورنٹو بنانے والے دو تنصیبات اس کے ایکسپورٹ مراکز بھی ہیں جو سالانہ 4 لاکھ (امریکا) اور 5 لاکھ 60 ہزار (جنوبی کوریا) یونٹس کی گنجائش رکھتی ہیں۔
مختصراً یہ کہ پاکستان میں گلوبل ماڈل کے مطابق کوئی ماڈل بنانا ناممکن تو نہیں ، لیکن یہ بہت پیچیدہ اور مہنگا کام ہے خاص طور پر اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ لوکل کِیا آپریشن ایک لائسنس یافتہ اسمبلی لائن ہے، کِیا کا اپنا مینوفیکچرنگ پلانٹ نہیں کہ جہاں معاملات بہت تیزی سے اور ہموار انداز میں ہوتے ہیں۔ پاکستانی آٹوموٹو انڈسٹری ایک CKD اسمبلی پر منحصر ہے، اور اس ماڈل کی ناک ڈاؤن کٹس آسانی سے اور فوراً دستیاب نہیں ہوتیں، کہ جس نے ابھی بیرونِ ملک پیداوار شروع ہی کی ہو اور وہ بھی بہت محدود عالمی مقامات پر۔
ہمیں معلوم ہے کہ موجودہ کرنٹ آٹو پالیسی کے مطابق ٹیکس پر ملنے والی گرین فیلڈ رعایتیں جون 2021ء میں ختم ہو جائیں گی، کِیا اس موقع کا فائدہ اٹھانا اور ایک نیا ماڈل لانا چاہے گا تاکہ مقابلے میں وہ بہتر قیمت پر پیش کر سکے۔ جون 2021ء کے بعد امپورٹ پر پوری ڈیوٹی لاگو ہو جائے گی، اس لیے نئی جنریشن کا انتظار کرنا اور چوتھی جنریشن بنانا وقت کی کمی کی وجہ سے بھی آپشن نہیں ہو سکتا۔
آخری بات:
آخر میں جہاں تک قیمت کی بات ہے تو اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا، لیکن میرے خیال میں یہ ٹویوٹا فورچیونر سے کم ہوگی۔ ہم سورنٹو کے دو ویرینٹ کی توقع رکھ سکتے ہیں کہ جن کی قیمت لگ بھگ 70 لاکھ روپے ہوگی۔ ہمیں یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ سورنٹو آف روڈ ایڈونچرز کے لیے نہیں بنائی گئی اور یہ آپ کی عام آف روڈ گاڑی نہیں ہے۔ جہاں تک روڈ کمفرٹ اور ڈائنامکس کی بات ہے تو سورنٹو فورچیونر کے مقابلے میں بہتر ہوگی۔
اس کی قیمت اور فیچرز کو دیکھیں تو یہ فورچیونر کو ٹف ٹائم دے سکتی ہے۔ سورنٹو کی واحد خامی اس کا باقی دنیا میں “DISCONTINUED” ماڈل ہونا ہ، لیکن کم از کم یہ مارکیٹ میں کچھ مقابلے کی فضاء ضرور بنائے گی۔
اس کے علاوہ سورنٹو کی کامیابی کا انحصار آفٹر-سیل سروس، پارٹس کی دستیابی اور دیکھ بھال پر آنے والی لاگت پر بھی ہوگی۔ اسپورٹیج کے مالکان میں اس وقت سب سے بڑا موضوعِ گفتگو اس کے مہنگے اسپیئر پارٹس اور مرمت پر آنے والی بھاری لاگت ہے۔ مہنگی سروس اور اسپیئر پارٹس، خاص طور پر وارنٹی مکمل ہو جانے کے بعد، گاڑی کی ری سیل ویلیو پر بری طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ کِیا اور ہیونڈائی پارٹس کی دستیابی تھرڈ پارٹی وینڈرز کے ذریعے ہوتی ہے یعنی کہ استعمال شدہ پارٹس بھی مارکیٹ میں آسانی سے یا سستے نہیں ملتے یعنی دوسرے الفاظ میں کہیں تو پارٹس کی دستیابی زیادہ تر صرف ڈیلرشپس تک ہی محدود رہ سکتی ہے۔
ایک اور اضافی معلومات یہ کہ کِیا پاکستان کسی بھی وقت کارنیوَل کی بکنگ لینا بند کر سکتا ہے، کہ جو اس وقت امپورٹ کی جا رہی ہے۔ کارنیوَل کے پاکستانی ورژن کی پیداوار نئی جنریشن کی آمد کی وجہ سے بیرونِ ملک بند ہو چکی ہے۔ کِیا پاکستان کارنیوَل کی قیمت میں نئی سورنٹو متعارف کروائے گا۔ اس حوالے سے مزید معلومات ملتے ہی ہم آپ کے ساتھ شیئر کریں گے۔
ہو سکتا ہے کہ KLM ہمیں چوتھی جنریشن کی خوش خبری دے، جو ایک بہتر اور زیادہ اچھی گاڑی ہے اور مجھے امید ہے کہ ایسا ہوگا، لیکن بدقسمتی سے زمینی حقائق ہماری اس خواہش کے مطابق نہیں ہے۔
اپنے خیالات نیچے کمنٹس میں پیش کیجیے۔