لاہور میں ای-چالان نادہندگان کے خلاف بڑا کریک ڈاؤن
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ کیا قوانین واقعی سب پر لاگو ہوتے ہیں؟ لاہور میں ٹریفک پولیس اس سوال کا جواب زور دار “ہاں” کے ساتھ دے رہی ہے، اور ان لوگوں کے خلاف ایک بڑا آپریشن شروع کر رہی ہے جنہوں نے بار بار اپنے ای-چالان کو نظر انداز کیا ہے۔ اور اس بار، کوئی استثنا نہیں – حتیٰ کہ سرکاری گاڑیوں کے لیے بھی نہیں۔
بڑا کریک ڈاؤن
چیف ٹریفک آفیسر (CTO) ڈاکٹر اطہر وحید اس بے مثال کریک ڈاؤن کی قیادت کر رہے ہیں، جس میں واجب الادا جرمانے والی سرفہرست 1,000 گاڑیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ یہ صرف کاغذی کارروائی نہ ہو، 12 وقف ریکوری ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔ یہ ٹیمیں جدید سیف سٹی سرویلنس ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے شہر بھر میں نادہندہ گاڑیوں کا سراغ لگا رہی ہیں اور موقع پر ہی جرمانے وصول کر رہی ہیں۔
اب تک، 300 سے زائد گاڑیاں پکڑی جا چکی ہیں، جس کے نتائج پہلے ہی نمایاں ہو رہے ہیں۔ ایک حیران کن انکشاف میں، ایک موٹر سائیکل پر 313 سے زائد ٹریفک خلاف ورزیاں پائی گئیں، جس کا مجموعی جرمانہ 335,300 روپے بنتا ہے۔ یہ یقینی طور پر ہماری اپنی کبھی کبھار کی پارکنگ ٹکٹ کو ایک نئے تناظر میں پیش کرتا ہے!
سرکاری گاڑیاں بھی نہیں بخشی گئیں
لیکن کہانی یہاں ایک دلچسپ موڑ لیتی ہے: ٹریفک پولیس نے واضح طور پر کہا ہے کہ سرکاری محکموں سے تعلق رکھنے والی متعدد گاڑیاں بھی بدترین خلاف ورزی کرنے والوں میں شامل ہیں۔
ان سرکاری گاڑیوں کی ایک علیحدہ، بڑی احتیاط سے مرتب کی گئی فہرست اب ہاتھ میں ہے، اور ان کے خلاف کارروائی جلد ہونے والی ہے۔ ٹریفک ڈیپارٹمنٹ تمام شہریوں پر زور دے رہا ہے کہ وہ مزید قانونی نتائج سے بچنے کے لیے اپنے بقایا جرمانے ادا کریں، ایک ایسی درخواست جو اب واضح طور پر سرکاری ملازمین پر بھی لاگو ہوتی ہے۔
سٹی ٹریفک پولیس (CTP) کی ایک واقعی چونکا دینے والی رپورٹ نے اس خاص مسئلے کی پیمائش کو نمایاں کیا ہے۔ اس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 73 محکموں کے سینئر سرکاری افسران کی استعمال کردہ 3,896 سرکاری گاڑیاں لاہور میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پکڑی گئی ہیں، ان میں سے بہت سی متعدد مواقع پر۔
رپورٹ میں شامل کچھ بڑے محکموں کو اجاگر کیا گیا ہے:
- پنجاب پولیس – 496 گاڑیاں
- سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ (S&GAD) – 358 گاڑیاں
- لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (LESCO) – 328 گاڑیاں
- واپڈا – 300 گاڑیاں
- لائیو سٹاک اینڈ ڈیری ڈیپارٹمنٹ – 184 گاڑیاں
- پی ٹی سی ایل – 181 گاڑیاں
- سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (SNGPL) – 130 گاڑیاں
- ایریگیشن ڈیپارٹمنٹ – 122 گاڑیاں
- پنجاب فوڈ اتھارٹی (PFA) – 117 گاڑیاں
- ڈپٹی کمشنر کا دفتر – 107 گاڑیاں
- نیشنل ہائی ویز اتھارٹی – 104 گاڑیاں
- لاہور کنٹونمنٹ بورڈ – 102 گاڑیاں
- ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ – 99 گاڑیاں
- لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (LDA) – 89 گاڑیاں
- پاکستان ریلوے – 76 گاڑیاں
- پنجاب ریونیو اتھارٹی – 69 گاڑیاں
- پنجاب ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ – 68 گاڑیاں
- پنجاب ہارٹیکلچر اتھارٹی – 61 گاڑیاں
- پنجاب ہوم ڈیپارٹمنٹ – 42 گاڑیاں
- رنگ روڈ اتھارٹی – 41 گاڑیاں
- پنجاب بورڈ آف ریونیو – 40 گاڑیاں
- پاکستان اٹامک انرجی کمیشن – 37 گاڑیاں
- فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (FIA) – 31 گاڑیاں
بہت سے شہریوں کے لیے خاص طور پر پریشان کن بات یہ ہے کہ سرکاری گاڑیوں کے انچارج افسران نے مسلسل جرمانے ادا کرنے میں ناکامی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس عدم فعالیت نے ٹریفک پولیس کے اعلیٰ حکام کو باضابطہ طور پر خطوط لکھنے پر مجبور کیا ہے، نہ صرف “خلاف ورزی کرنے والوں کی نشاندہی کرنے اور فیس ادا کرنے” کے لیے، بلکہ ان کے خلاف براہ راست کارروائی شروع کرنے کے لیے بھی۔
یہ عام عوام کے بالکل برعکس ہے، جن کے خلاف ٹریفک پولیس نے پچھلے 10 دنوں میں لاہور میں ٹریفک خلاف ورزیوں کے لیے 4,541 ایف آئی آر درج کی ہیں، اور بہت سے افراد کو موقع پر ہی گرفتار کیا گیا ہے۔
یہ آپریشن صرف بقایا جرمانوں کو صاف کرنے کے بارے میں نہیں ہے؛ یہ احتساب اور قانون کے یکساں اطلاق کے بارے میں ایک طاقتور بیان ہے۔ لاہور ٹریفک پولیس ایک واضح پیغام دے رہی ہے: چاہے آپ ایک عام شہری ہوں یا ایک اعلیٰ عہدیدار، ٹریفک کے قواعد سب کے لیے ہیں، اور ان کی خلاف ورزی کے نتائج ہوتے ہیں۔