کم عمری کی ڈرائیونگ کا خطرہ ۔۔ پاکستان میں جاری!
کم عمری کی ڈرائیونگ کے خطرات ایسا موضوع ہے جو جس پر ہم کئی تحریریں شائع کر چکے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس کے خلاف مسلسل مہمات چلا رہے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہمیں اب بھی اس خطرناک اور غیر قانونی حرکت کا سامنا ہے۔ حال ہی میں ملتان کی سڑکوں پر ایک بچے کی تنہا لینڈ کروزر ڈرائیو کرنے کی وڈیو دیکھی گئی، جس سے سنگین سوالات کھڑے ہوئے ہیں اور یہ سوشل میڈیا پر گفتگو کا موضوع بنا ہوا ہے۔
دنیا بھر میں لائسنس حاصل کرنے کی ایک مخصوص عمر ہے، اور پاکستان میں بھی ایسے ہی قانون موجود ہیں۔ اس کے باوجود بدقسمتی سے ان کی کھلے عام خلاف ورزی کی جاتی ہے، اور ہم ہر دن ہی کم عمر ڈرائیورز اور رائیڈرز کو کسی کارروائی کے خوف کے بغیر گاڑیاں چلاتے دیکھتے ہیں۔ کم عمری کی ڈرائیونگ کی وجہ سے کئی حادثات نے جنم لیا ہے جن کا نتیجہ سنگین نکلا ہے اور چند صورتوں میں تو جانیں بھی گئی ہیں۔ کم عمری کی ڈرائیونگ عوام کے لیے خطرناک ہے اور خود ان کی اپنی جانوں کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ گاڑیوں کے علاوہ بچوں کی بہت بڑی اکثریت موٹر سائیکلیں بھی چلا رہی ہے اور آٹو رکشے اور چنگ چی بھی چلاتے دیکھا گیا ہے۔
قانون اور والدین کی ذمہ داری:
کسی کو بھی لائسنس کے بغیر گاڑی نہیں چلانی چاہیے۔ 18 سال کی مقررہ عمر تک پہنچنے، اور موجودہ قانون کے تحت لرنر پرمٹ حاصل کرنے کے قابل ہونے اور پھر باقاعدہ لائسنس حاصل کرنے تک لازماً انتظار کرنا چاہیے۔ لرنرز پرمٹ رکھنے والوں کو اپنے ساتھ ایک لائسنس یافتہ ڈرائیور رکھنا چاہیے۔ وہ اکیلے ڈرائیونگ نہیں کر سکتے جب تک کہ درست لائسنس حاصل نہ کر لیں۔ یہ بھی غیر قانونی ہے۔
والدین کی اہمیت یہاں بہت زیادہ ہے۔ بدقسمتی سے کچھ والدین اپنے بچے کی کم عمری میں ڈرائیونگ پر فخر کرتے ہیں۔ بلکہ کبھی کبھار تو وہی انہیں ڈرائیو کرنے کا کہتے ہیں۔ یہ کوئی فخر کرنے کی بات نہیں ہے؛ یہ انتہائی تشویش کی بات ہے اور والدین کو اس حوالے سے بہت سختی دکھانی چاہیے۔ یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ یقینی بنائیں کہ بچے گاڑیوں/موٹر سائیکلوں کی چابی تک رسائی نہ رکھیں جب تک کہ انہیں قانونی طور پر اجازت نہ ملے اور ان کے پاس لائسنس نہ ہو۔ بغیر لائسنس کے ڈرائیونگ کرنا غیر قانونی ہے اور کم عمری میں بھی، چاہے والدین اس کم عمر بچے کے ساتھ ہی کیوں نہ ہوں۔
میں یہاں کسی پر فتوے نہیں لگا رہا، لیکن بدقسمتی سے یہ مسئلہ ہماری تعلیم یافتہ اور معاشرے کے بہتر طبقے میں زیادہ ہے۔ میں شرط لگا سکتا ہوں کہ آپ کسی اسکول کے باہر کھڑے ہوں آپ کو بہت سے بچے گاڑیاں ڈرائیو کرتے ہوئے نظر آئیں گے جبکہ ڈرائیور پچھلی سیٹ یا پیسنجر سیٹ پر بیٹھا ملے گا۔ میں نے تو والدین کو بھی ان کے ساتھ بیٹھا ہوا دیکھا ہے۔ حادثات کی صورت میں یہ والدین یا تو اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرنے کی یا کسی کو پیسے دینے کی اور اس معاملے سے باآسانی جان چھڑانے کی کوشش کریں گے۔ اس طرح کی حرکتیں کر کے ہم اپنے بچوں کو کیا سکھا رہے ہیں؟ کسی بھی خلاف ورزی کی صورت میں والدین کو جیل بھیجنا چاہیے اور ان پر بھاری جرمانے لگانے چاہئیں اور ان کی گاڑی/موٹر سائیکل کو ضبط کر لینا چاہیے۔
احتیاط کریں:
اپنے گھروں، محلوں میں، اپنے خاندان اور سماجی حلقے میں دیکھیں۔ اپنے اور دوسروں کے بچوں کے تحفظ کی خاطر آگے بڑھیں۔ میں نے ایسے والدین بھی دیکھے ہیں جو اپنے بچے کی کم عمری کی ڈرائیونگ پر فخر کرتے ہیں، لیکن اس حرکت کا نتیجہ کسی کی جان جانے یا کسی کے واحد کفیل کی موت کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ خود ایک والد کی حیثیت مجھے اپنے بچوں کی کامیابیوں پر فخر ہوتا ہے، لیکن کچھ کاموں کا ایک مناسب وقت اور عمر ہوتی ہے۔ والدین/سرپرستوں کو اس سرگرمی کی کھل کر حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، چاہے وہ خود ہی اس کے برابر میں کیوں نہ بیٹھے ہوں۔ ہر صورت میں ناں!
والدین/سرپرستوں کو یقینی بنانا چاہیے کہ اگر بچے ڈرائيور کے ساتھ باہر جا رہے ہیں تو وہ اس غریب کو دباؤ میں لا کر چابیاں نہ لے سکیں۔ اگر ہمیں اپنے اردگرد کوئی ایسا کرتا نظر آئے تو اسے لازماً روکنا چاہیے اور اس کی شکایت والدین کو کرنی چاہیے۔ کم عمری میں ڈرائیونگ کو روکیں! اگر آپ کوئی بھی گاڑی دیکھیں جسے بچے چلا رہے ہیں تو اس کا پلیٹ نمبر نوٹ کر لیں اور فوراً پولیس کو بتائیں۔
کم عمری کی ڈرائیونگ کو روکیں!