ٹائر سمگلنگ کی وجہ سے پاکستان کو اربوں روپے کا نقصان

ٹائروں کی اسمگلنگ پاکستانی آٹو انڈسٹری کے بڑے مسائل میں سے ایک ہے۔ ملک میں ٹائروں کا غیر قانونی کاروبار عروج پر ہے جس سے قومی خزانے کو اربوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ صنعت کے اسٹیک ہولڈرز نے دعویٰ کیا ہے کہ ٹائروں کی اسمگلنگ کی وجہ سے ملکی خزانے کو 40 ارب کا نقصان ہو رہا ہے۔

اس نقصان کا حساب لگایا جائے تو ٹائروں کی سالانہ ڈیمانڈ تقریباً 14 ملین ہے۔ مقامی طور پر تیار کردہ ٹائر اس مانگ کا 15 فیصد بنتا ہیں جس کا 35 فیصد ٹائر کی قانونی درآمد کے ذریعے پورا کیا جاتا ہے جبکہ بقیہ 50 فیصد حصہ اسمگل شدہ ٹائرز کو جاتا ہے۔ یہ 7 ملین اسمگل شدہ ٹائروں کی ایک مارکیٹ ہے، جہاں زیادہ تر ٹائرز بھارت سے آتے ہیں۔

ٹائر اسمگلنگ کا عروج و زوال

اسٹیک ہولڈرز کے مطابق کورونا کے پھیلاؤ کے دوران لگنے والی پابندیوں کی وجہ سے ٹائروں کی اسمگلنگ کو روکنے میں مدد ملی۔ کورونا پابندیوں سے قبل طورخم، چمن اور تفتان بارڈر کے راستے ٹائر اسمگل کیے جا رہے تھے لیکن پاکستان میں عالمی وبا کورونا پھیلنے کی وجہ سے 90 فیصد سے زیادہ سرحدیں بند کر دی گئیں جس کے بعد ٹائروں کی اسمگلنگ کا واحد راستہ سرحدی چیک پوسٹوں کے ذریعے تھا۔

چونکہ اب سرحدی پابندیاں ہٹا دی گئی ہیں تو اگست سے ٹائروں کی اسمگلنگ کا کاروبار عروج پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیر قانونی تجارت صنعت کی مسابقت اور قومی خزانے کی آمدنی کو متاثر کر رہی ہے۔

حل کیا ہے؟

فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے سمگلنگ کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے کسٹمز کی سطح پر سخت اقدامات کیے ہیں لیکن صنعت کے اسٹیک ہولڈرز کا کہنا ہے کہ یہ کافی نہیں ہے۔ ٹائروں کی اسمگلنگ کے غیر قانونی کاروبار کو ختم کرنے کے لیے مزید محنت کی ضرورت ہے۔

جنرل ٹائرز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر حسین کلی خان نے سٹاک مارکیٹ پر نظر رکھنے کا مشورہ دیا ہے کہ آیا کوئی بیچنے والا اسمگل شدہ اشیاء کا کاروبار کر رہا ہے۔ جو بھی اسمگلنگ کا مرتکب پایا گیا اس کی غیر قانونی طور پر درآمد شدہ اشیاء ضبط کر لی جائیں گی۔

سی ای او جنرل ٹائرز کو افغان ٹرانزٹ ٹریڈ (اے ٹی ٹی) کے ذریعے درآمد کیے جانے والے سامان پر بھی شک ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ درآمد شدہ سامان یا تو کراچی میں اتارا جاتا ہے یا پھر افغان سرحد سے سمگلنگ کے ذریعے واپس کیا جاتا ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ حکومت افغان ٹریڈ ٹرانزٹ کے تحت درآمدی ڈیٹا کا دوبارہ جائزہ لے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ آیا درآمد شدہ ٹائروں کی تعداد افغانستان کی گاڑیوں کی تعداد سے ملتی ہے۔

مقامی ٹائر انڈسٹری قومی خزانے میں سالانہ 3.2 بلین روپے کا حصہ ڈالتی ہے اور روزگار کے مواقع فراہم کرتی ہے لیکن سمگلر سسٹم کو غلط استعمال کر کے ملک کو اربوں کا نقصان پہنچا رہے ہیں۔

Exit mobile version