کیا پاکستانی آٹو انڈسٹری ایک نئے ‘سُپر ٹیکس’ کیلئے تیار ہے؟

پاکستان کی کار انڈسٹری برسوں سے اعلیٰ درآمدی محصولات سے محفوظ ہے۔ مقامی کمپنیاں مارکیٹ پر حاوی ہیں، لیکن ان کی بنائی گئی گاڑیاں مقامی مارکیٹ میں مقبول ہونے کے باوجود انٹرنیشنل مارکیٹ سے دور ہیں۔ لہذا، اہم سوال یہ ہے کہ کیا سب روایتی طور پر اسی طرح چلتا رہنا چاہیے یا پاکستان میں تیار کی گئی گاڑیوں کو اب برآمد بھی کرنا چاہئے؟

سپر ٹیکس؟

حکومت کی طرف سے اگر سپر ٹیکس متعارف کروایا جاتا ہے تو اس مقصد یہ ہو گا کہ کمپنیز کا رجحان ایکسپورٹ کی طرف بڑھے جہاں زیادہ تر پاکستان میں فروخت کرنے والی کمپنیاں 60 فیصد ٹیکس سے متاثر ہوں گی لیکن اگر کسی کمپنی کی برآمدات میں اضافہ ہوتا ہے تو ٹیکس ک شرح میں کمی آئے گی۔

یعنی جو کار کمپنیز زیادہ گاڑیاں برآمد کرے گی اسے اتنا ہی کم ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔ مطلب، زیادہ برآمد کریں، کم ٹیکس ادا کریں۔ اس منصوبے کا مقصد ممکنہ طور پر برآمدات کو 40 فیصد تک بڑھانا ہے، جس سے ملکی معیشت پر اچھا اثر پڑے گا۔

برآمدات کی بنیاد پر کار کمپنیوں پر سپر ٹیکس سٹرکچر یہ ہوگا:

بنیادی طور پر، اس تجویز کا مقصد کار کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے کہ وہ اپنے منافع کو ان کی برآمدی کارکردگی سے جوڑ کر مزید برآمد کریں۔

اس منصوبے کے حامی اس ٹیکس کو پاکستانی کاروں کے لیے گیم چینجر کے طور پر دیکھتے ہیں۔ برآمد کرنے کا دباؤ مقامی کار سازوں کو اپنی پرفارمنس بہتر کرنے پر بڑھانے پر مجبور کرے گا، جس سے ان کی کاریں عالمی سطح پر دیگر کمپنیز کا مقابلہ کرنے کے قابل بن جائیں گی۔

تاہم کچھ لوگوں کو خدشہ ہے کہ 60 فیصد ٹیکس ان کی کمپنیوں کے لیے ایک بہت بڑا بوجھ ہو سکتا ہے جو پہلے سے ہی زیادہ اخراجات کی وجہ سے نقصان کا سامنا کر رہی ہیں۔ انکا یہ بھی کہنا ہے کہ کارخانوں کی تعمیر اور برآمدی نیٹ ورک قائم کرنے میں وقت لگتا ہے، اس لیے اچانک برآمدات میں تیزی کی توقع کرنا ایک غیر حقیقی نقطہ نظر ہو سکتا ہے۔

اس سپر ٹیکس کے بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟ کمنٹس سیکشن میں ہمیں بتائیں۔

Exit mobile version