سیلز میں 70 فیصد کمی، آٹو انڈسٹری میں ہزاروں افراد نوکری سے فارغ

گاڑیوں کی پیداوار اور فروخت میں تقریباً 70 فیصد کمی کے باعث پاکستان میں آٹو موٹیو انڈسٹری نے گزشتہ چند مہینوں میں ہزاروں کارکنوں کو فارغ کر دیا ہے۔ انگریزی روزنامے کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ خام مال کی درآمد پر پابندی، سٹیٹ بینک آف پاکستان (SBP) کی جانب سے ایل سی جاری نہ کرنے، روپے کی قدر میں کمی اور ریکارڈ بلند افراط زر کی وجہ سے انڈسٹری اس مقام پر پہنچی ہے۔

موجودہ حکومت نے گزشتہ سال خام مال کی درآمد پر پابندی عائد کر دی تھی، جس کے نتیجے میں کاروں کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی تھی اور اس کے بعد میں چھانٹیوں اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا تھا۔ اسی اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان ایسوسی ایشن آٹو موٹیو پارٹس اینڈ اسیسریز (PAPAAM) کے چیئرمین منیر کریم بانا نے کہا کہ صنعت نے حالیہ چند مہینوں میں ہزاروں ورکرز کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے کیونکہ پیداوار عملاً بند ہو گئی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ کوئی خریدار نہیں ہے کیونکہ کار کمپنیوں نے اپنے پلانٹ بند کر دیے ہیں۔

انڈسڑی سے کیا امید کی جائے؟

بانا نے کہا کہ PAAPAM گاڑیوں کے تقریباً 90 فیصد مقامی پارٹس کار کمپنیوں کو فراہم کرتا ہے۔ ہمارے خام مال کی قدر میں کمی ہو رہی ہے، لیکن ہماری شکایات سننے والا کوئی نہیں ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ پیداوار نہ ہونے سے آمدنی بالکل ختم ہو رہی ہے۔

چیئرمین نے یہ بھی کہا کہ یہ صنعت پہلے منافع بخش ہوا کرتی تھی لیکن اب یہ دیوالیہ ہو چکی ہے اور آنے والے سالوں میں اس کی بحالی کے امکانات کم ہی ہیں۔ دریں اثنا، وزیر اعظم شہباز شریف کے کوآرڈینیٹر برائے تجارت و صنعت، رانا احسان افضل نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی تک انڈسٹری اپنی مکمل کارکردگی کو نہ پہنچ سکے۔ انہوں نے کہا، “بدقسمتی سے، صنعت کو اپنے کارکنوں کو نکالنا پڑ رہا ہے، لیکن فی الوقت، ہمیں خام مال کی درآمد پر پابندی برقرار رکھ کر اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کی حفاظت کرنی ہوگی۔

کاروں کی فروخت میں 85 فیصد کمی

پاما کی تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اپریل 2023 میں کاروں کی فروخت میں سال بہ سال بنیادوں پر 85 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صنعت نے اپریل 23 میں صرف 2844 یونٹس فروخت کیے جبکہ گزشتہ سال کی اسی مدت میں فروخت ہونے والی گاڑیوں کی تعداد 18626 تھی۔

اسی طرح، ماہ بہ ماہ فروخت میں اسی رجحان کا مشاہدہ کیا گیا۔ مارچ میں 9351 کاروں کے مقابلے میں گزشتہ ماہ 4463 گاڑیاں فروخت ہوئیں یعنی کہ سیلز میں 52 فیصد کمی واقع ہوئی۔

پاکستان میں آٹو انڈسٹری کی موجودہ حالت زار پر آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ بہتر ہوگی؟ کمنٹس سیکشن میں اپنے خیالات کا اظہار کریں۔

Exit mobile version