گورننگ باڈی کی عدم موجودگی پاکستان میں گاڑیوں کو غیر محفوظ بناتی ہوئی
پاکستان میں گاڑیوں کے جانچ کے کسی بھی میکانزم کے لیے کوئی گورننگ اتھارٹی سرے سے موجود نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں گاڑیاں سیفٹی فیچرز سے محروم ہیں اور یوں عوام کی جانیں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ جاپان سے درآمد کی جانے والی گاڑیوں کے نام نہاد سیفٹی فیچرز سے عوام کو بے وقوف بنایا گیا ہے۔ یہاں تک کہ ہماری لوکل آٹو انڈسٹری بھی گاڑیوں میں سیفٹی فیچرز کی اہمیت پر غور کرنے سے گریزا ں ہے۔ ہم ایک جدید دور میں رہتے ہیں کہ جہاں گاڑیوں کے سیفٹی فیچرز دنیا بھر میں اسٹینڈرڈ کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں لیکن یہاں پاکستان میں انہیں لگژری شمار کیا جاتا ہے۔ اس صورت حال میں زیادہ ذمہ داری حکومت کے کاندھوں پر آتی ہے جو اتنے اہم مسئلے پر سرے سے غور ہی نہیں کر رہی کہ جو سالانہ کئی اموات کا سبب بنتا ہے۔ سیٹ بیلٹس اور SRS ایئر بیگز جیسے سیفٹی فیچرزکا ہر گاڑی میں موجود ہونا ضروری ہے۔ گو کہ ایئر بیگز کی موجودگی بھی آپ کو زندگی کی ضمانت تو نہیں دیتی لیکن یہ کسی بھی حادثے کی صورت میں بڑی چوٹ لگنے کے خطرے کو کم ضرور کرتے ہیں۔ لیکن حکومت، گاڑیاں بنانے والے اداروں اور درآمد کرنے والوں کی اجتماعی غفلت نے پاکستان میں سفر کو بھیانک بنا دیا ہے۔
ملک میں سیفٹی چیکنگ کا کوئی نظام موجود ہی نہیں کہ جسے عوام کی حفاظت کے لیے نافذ کیا جا سکے۔ یہ صورت حال ان ڈیلرز کے لیے کھلا میدان فراہم کرتی ہے کہ جو پاکستان میں ایکسیڈنٹ ہوئی ہوئی یا خراب ایئر بیگز کی حامل یا سرے سے ہی ایئر بیگز نہ رکھنے والی گاڑیاں درآمد کرتے ہیں۔ اگر کوئی امپورٹڈ گاڑی کارآمد ایئر بیگز کے ساتھ آتی ہے تو یہ مافیا انہیں نکال لیتی ہے اور مقامی مارکیٹ میں الگ سے فروخت کر دیتی ہے۔ SRS کا مطلب ہے Supplementary Restraint System، یعنی یہ مسافروں کو حادثے کی صورت میں سخت چوٹ لگنے سے بچانے میں مدد دیتے ہیں۔ کیونکہ ملک میں سیفٹی اسٹینڈرڈز پر کوئی نظر نہیں، اس لیے ایسی حرکتیں اب مارکیٹ میں عام ہیں۔ گو کہ ملک میں موٹر وہیکل آرڈیننس 1965ء کے تحت کمرشل گاڑیوں کو وقتاً فوقتاً چیک کرنے کا قانون موجود ہے لیکن یہ بھی پرانے آلات کی وجہ سے قابل بھروسہ نہیں رہا۔
حادثے کا شکار ہونے والی امپورٹڈ گاڑیاں کافی سستی ہوتی ہیں اس لیے امپورٹرز کا پہلا انتخاب اور اولین ترجیح ہیں۔ گاڑی خریدنے والے صارفین کو اس کی سیفٹی چیک کے حوالے سے کافی معلومات تو ہوتی نہیں، یوں ڈیلر اس کا فائدہ اٹھا لیتا ہے۔ پھر کچھ ایسے طریقے بھی ہیں کہ جن سے گاڑی کے ایئر بیگز کے حوالے سے کسی کو بھی بے وقوف بنایا جا سکتا ہے۔ اگر ایئربیگ خراب ہو تب بھی گاڑی کے میٹر کلسٹر میں کسی قسم کا کوئی الارم نہیں بجتا۔ گاڑی کے الیکٹرانک سسٹم کے ساتھ رابطے کے لیے ایک اسکینر استعمال کیا جاتا ہے جو کسی بھی خامی کو تلاش کرکے ظاہر کرتا ہے۔ لیکن ہیکرز کی جانب سے اس اسکینر کو بھی بے وقوف بنایا جا سکتا ہے جو گاڑی میں ایئر بیگ سرے سے موجود ہی نہ ہونے پر بھی کوئی خامی ظاہر نہیں کر پاتا۔ ایسی گھٹیا حرکات میں ملوث افراد سے بذریعہ قانون سختی سے نمٹا جانا چاہیے۔ ایئر بیگز سسٹم مرمت کے قابل نہیں ہوتا اور خراب ہونے پر صرف ایک بار ہی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ صارفین بھی اس کو تبدیل کروانے کی زحمت نہیں کرتے کیونکہ اس کی لاگت 2 سے 3 لاکھ روپے ہوتی ہے۔
اگر ہم مقامی طور پر بنائی جانے والی گاڑیوں کی بات بھی کریں تو صرف ٹویوٹا ہی اس امر کو یقینی بناتا ہے کہ اس کی تمام گاڑیاں ایئر بیگز کے ساتھ آئیں۔ اس کے علاوہ ملک میں کام کرنے والے باقی دونوں جاپانی ادارے ہونڈا اور سوزوکی آج بھی اپنی گاڑیوں میں لازمی اور معیاری ایئربیگز پیش نہیں کر پائے۔ ہاتھوں ہاتھ فروخت ہونے والی ہونڈا سٹی کے کسی بھی ویرینٹ میں ایک ایئر بیگ تک نہیں، جو مضحکہ خیز بات ہے۔ البتہ ہونڈا سوِک دو ایئر بیگز کے ساتھ آتی ہے۔ اسی طرح سوزوکی کاروں کے چند ماڈلز میں جیسا کہ ویگن آر اور سوئفٹ میں مینوفیکچرر کی جانب سے کوئی ایئر بیگ نہیں لگایا جاتا۔ لیکن یہ جان کر اچھا لگا کہ کمپنی نے اپنی نئی 660cc آلٹو میں اسٹینڈرڈ کے طور پر اس سیفٹی فیچر کو شامل کیا ہے۔
حکومت کو ملک میں چلنے والی تمام گاڑیوں کے لیے ضروری سیفٹی چیک لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی گورننگ باڈی بہت ضروری ہے جو مقامی سطح پر بننے والی تمام گاڑیوں میں ایئر بیگز کی تنصیب اور جاپان سے درآمد کی جانے والی گاڑیوں کے لیے انسپکشن میکانزم بنائے۔ متعدد ایسے ادارے بھی موجود ہیں جیسا کہ انجینئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ (EDB)، لیکن اس اہم مسئلے پر کبھی روشنی نہیں ڈالی۔ اب وقت آ چکا ہے کہ عوام کی سیفٹی کو ترجیحی بنیادوں پر یقینی بنانے کے لیے ایک پالیسی فریم ورک ترتیب دیا جائے۔
اگر اس حوالے سے آپ بھی کچھ کہنا چاہتے ہیں تو نیچے تبصروں میں ضرور کہیں۔ مزید خبروں کے لیے پاک ویلز پر آتے رہیں۔