الحاج فاء نے کامیابی سے ای کوٹ پینٹنگ کی سہولت کا آغاز کر دیا
ہر نیا دن پاکستانی آٹو موٹو صارفین کے لیے ایک نئی چیز لاتا ہے۔ 8 ایکڑ سے زیادہ زمین کے حصول اور 600 ملین روپے کی کمال سرمایہ کاری سے الحاج فاء نے اپنے آٹو موبائل مینوفیکچرنگ یونٹ پر ریاست کا سب سے جدید ترین الیکٹرو ڈیپوزیشن ای کوٹ پینٹ فیسلٹی نصب کر دی۔ چینی ملکیتی کمپنی کے ماتحت ادارے نے پاکستان میں پاکستانی آٹو موٹو مارکیٹ کے حوالے سے کسی بھی قسم کی ’پروڈکٹ مکس‘ فراہم کرنے کی اپنی زمی داری کو قابلیت سے بار بار نبھایا ہے۔ خواہ وہ مسافر بردار گاڑیاں ہوں یا لائٹ اور ہیوی وہیکلز، کمپنی نے یہ سب کیا ہے اور کامیابی سے اپنے مقررہ سیل کے حدف کو پورا کیا جس سے بہت جلدی اس نے پاکستان میں تیزی سے ابھرتی ہوئی چوتھی آٹو مینوفیکچرر کمپنی کا اعزاز حاصل کر لیا ہے۔
کمپنی کی ہسٹری پر مختصر نظر:
الحاج فاء نے اپنا پہلا قدم جولائی 2006 میں رکھا جب انہوں نے فاء کارپوریشن کے ساتھ ایک ڈسٹریبیوشن لائسنس اگریمنٹ پر دستخط کیے جس سے انہیں فاء کمپنی کی گاڑیاں پاکستان درآمد اور فروخت کرنے کی اجازت ملی۔ کمپنی نے ہیوی ڈیوٹی ٹرک کے دو ویرینٹس سے آغاز کیا۔ کمپنی کی ترقی میں اہم موڑ نومبر 2012 میں آیا جب کمپنی نے کراچی میں پہلا اسیمبلی پلانٹ لگایا، اس کے صرف ایک سال بعد کمپنی نے اپنا اگلا انتہائی اہم قدم کامیابی سے رکھا اور 1000cc سے کم پاور کی کارگو اور پک اپ وینز متعارف کروا دیں۔ الحاج کی کامیابیاں صرف پروڈکشن لائن تک محدود نہیں ہیں بلکہ اس نے پورے ملک میں 35 ڈیلرز کے ساتھ مارکیٹ میں انتہائی اہم جگہ حاصل کر لی ہے۔ کمپنی نے اپنے سفر کا آغاز گیارہ 3 ایس ڈیلرز سے کیا اور اب یہ تعداد انتہائی متاثر کن 21 کے ہندسہ تک پہنچ چکی ہے جس سے الحاج کمپنی پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں موجود ہے۔ مزید یہ کہ کمپنی کے حکام مقامی طور پر گاڑٰیاں اسیمبل کر کے اپنی پروڈکشن لائن کو مزید تیز بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
ٹپنگ پوائنٹ:
حالیہ متعارف کروائی گئی آٹو پالیسی کے مطابق حکومت نے ہر مقامی کمرشل اور مسافر بردار گاڑیاں اسیمبل کرنے والے کے لیے یہ لازم قرار دیا ہے کہ وہ اپنے پروڈکشن پلانٹ پر ای ڈی پینٹ کوٹنگ فیسلٹی بنائے۔ اطلاعات کے مطابق حکومت نے 29 جون 2016 کے ایس آر او 483 کے تحت اپنی طاقت کا استعمال کیا ہے۔ الحاج نے اس پلانٹ کو اپنی کمپنی میں ایک اہم حصہ بنانے کےلیے 600 ملین روپے کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اس کے گیارہ سب مرجنگ ٹینک اور انڈسٹریل اوون الحاج فاء کی لائن اپ کی ہر قسم کی گاڑیوں کو پینٹ کرنے کے قابل بناتے ہیں۔
کمپنی حکام کے مطابق، ٹیکنالوجی اور کارکردگی کے حوالے سے یہ اپنی طرز کا واحد پلانٹ ہے۔ اس پلانٹ کو انسٹال کرنے کے لیے ہنرمند کوریا اور چائنا سے بلوائے گئے۔ مزید یہ کہ اس پروجیکٹ کو مکمل کرنے کا باقاعدہ حدف 6 ماہ تھا۔
اس ترقی کے فوائد:
کمپنی اس بڑے اقدام سے درج زیل مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔
- ری سائیکلنگ سے ویسٹ کم کرنا
- روزانہ کی پروڈکشن کو بڑھانا
- پینٹ کی کوالٹی کو بہتر بنانا اور مصنوعات کو مزید پائدار کرنا
- اوریجنل ایکوپمنٹ مینوفیکچرنگ کے عمل کوسٹینڈرائز کرنا
- پروڈکشن بڑھانے کے لیے سمارٹ اور متاثرکن حل لاگو کرنا
پاکستانی آٹو مینوفیکچررز کی بھلا دی جانے والی مختلف گاڑیوں کی یاد دہانی:
انتہائی مشہور اعتقاد کے برعکس، پاکستانی تاریخ میں 60 سے 70 کی دہائی میں بہت سے کار ساز آئے۔ چیورولیٹ، پروٹون، نسان، مٹسوبشی، کیا، ہنڈائی، چیری، اور گیلی جیسی کمپنیاں آئیں اور بہت جلد چلی گئیں۔ ان تمام کمپنیوں کے بند ہونے کی مختلف وجوہات ہیں۔ اگر الحاج کی بات کی جائے تو یہ وہ واحد کمپنی ہے جو کہ نہ صرف برقرار رہی بلکہ پاکستان میں اس کے لائٹ اور ہیوی دونوں گاڑیوں کی سیل کا گراف بڑھتا ہی رہا۔ نیچے مختلف کارساز کمپنیوں کی معلومات جمع کی گئی ہیں جو پاکستانی تاریخ کے مختلف ادوار میں آئیں۔
- 90 کی دہائی کے آغاز میں مقامی مارکیٹ میں پاک سوزوکی کے علاوہ کوئی کارساز موجود نہیں تھا۔ تو مختلف یلو کیب جیسی سکیموں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ڈائیوو ریسر اور ہنڈائی ایکسل کے کئی یونٹ درآمد کیے گئے۔
- 90 کی دہائی کے آخر میں کیا انتہائی فخریہ انداز میں اس منظرنامہ پر آئی اور اس نے تمام مقامی صارفین سے کافی داد اور سپورٹ لی لیکن کمپنی نے اپنا بوریا بسترا باندھا اور پاکستان میں اپنا کاروبار بند کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
- 2000 کی دہائی کے آغاز میں دیوان موٹرز مارکیٹ میں آئے اور کیا اور ہنڈائی دونوں گاڑیاں متعارف کروا دیں۔ اگلے آٹھ سال کمپنی مقررہ تاریخوں پر گاڑیاں فراہم کرنے میں ناکام رہی اور عوام کی نظروں میں اس نے اپنا معیار کھونا شروع کردیا۔
- پروٹون اور آدم نے پاکستانی آٹو مارکیٹ سے پیسہ کمانے کی کوشش کی لیکن بہت سی وجوہات کی بناء پر ان کو اپنا کاروبار بند کرنا پڑا۔
- مٹسوبشی لانسر اور نسان سنی کامیابی سے پاکستان میں داخل ہوئیں۔ لیکن بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ ان کا بدترین ڈیلیوری ٹائم اور گاڑیوں پر پریمیم ہوا کرتا تھا۔ کمپنی نے کچھ کامیابیوں کے مزے اٹھائے لیکن پھر بہت جیسوں کی طرح انہیں بھی پاکستان میں اپنے آپریشن بند کرنا پڑے۔
- آخری لیکن انتہائی اہم چائینیز گاڑیاں ہیں۔ ان مصنوعات کو مارکیٹ میں باقی گاڑیوں کی نسبت ملا جلا ردعمل ملا۔ دی چینگان کیریر، چیری کیو کیو، اور گیلی سی کے سیڈان پاکستان میں لائی گئی لیکن جیسی چائنی گاڑیاں آج کل ساری دنیا کو ملتی ہیں ان سے یہ گاڑٰیاں بالکل الٹ تھیں۔
آخری الفاظ میں، میں یہ اعتراف کروں گا کہ اوپر بتائی جانے والے تمام کار ساز پاکستان میں ایک تاریخ رکھتے ہیں اور ان پر انفرادی بلاگ لکھا جاسکتا ہے۔ لیکن اس آرٹیکل کا مقصد صرف ان کمپنیوں اور الحاج پر روشنی ڈالنا تھا۔ اس بات سے قطع نظر کہ آپ اس کمپنی کے بارے میں کیسا سوچتے ہیں مگر اس حقیقت اور اس کی کامیابیوں کو نہیں جھٹلایا جاسکتا۔ جہاں دوسرے ناکام ہوگئے وہاں الحاج سینہ تان کر کھڑا رہا اور مقامی مارکیٹ کی ضروریات کے حساب سے نئے چیلینج تلاش کرتا رہا۔