ایٹلس ہونڈا 100 ملین ڈالر سرمایہ کاری: کیا جدید بائیک کا خواب پورا ہوگا؟
پاکستان میں سب سے زیادہ موٹر سائیکل تیار کرنے والے ادارے ایٹلس ہونڈا نے اعلان کیا ہے کہ وہ شیخوپورہ میں قائم کارخانے کو مزید توسیع دینے کے لیے 100 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہونڈا موٹر کمپنی اور ایٹلس گروپ کی مشترکہ کمپنی اس بار بہت بڑی سرمایہ کاری کرنے جا رہی ہے تو آپ کو یاد دلاتے چلیں کہ یہ ادارہ سال 2013 میں اس سے دگنا رقم بھی لگا چکا ہے۔
ادارے کے مجلس منتظمین کا اجلاس 30 اکتوبر کو ہوا اور اس نے آئندہ تین سالوں کے لیے اس سرمایہ کاری کو منظور کیا۔ اس وقت ایٹلس ہونڈا سالانہ 6 لاکھ موٹر بائیکس تیار کرتا ہے۔ نئی سرمایہ کاری سے سال 2016 کے آخر میں تیار ہونے والے موٹر بائیکس کی تعداد دُگنا ہوجانے کی امید ہے۔ ایک اندازے کے مطابق شیخوپورہ کارخانے میں توسیع سے مجموعی طور پر 7 ہزار ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔یاد رہے کہ ایٹلس ہونڈا کی بنیاد 1963 میں رکھی گئی۔ اس ادارے کے دو کارخانے کراچی اور شیخوپورہ میں موجود ہیں۔
ایک سو ملین ڈالر کی نئی سرمایہ کاری تین حصوں میں تقسیم کی جائے گی۔ ایٹلس ہونڈا مجموعی مالیت کا نصف جبکہ دیگر شراکت دار 30 فیصد اور پرزے فراہم کرنے والے 20 فیصد حصہ ادا کریں گے۔ ممکن ہے آپ یہ سوال کریں کہ پرزے فراہم کرنے والے کیوں سرمایہ کاری میں حصہ لے رہے ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ موٹر سائیکل کی تیاری اور پھر ان سے حاصل ہونے والے منافع میں زیادتی سے براہ راست انہیں بھی فائدہ حاصل ہوگا۔
ایٹلس ہونڈا کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نے اس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی معاشی صورتحال میں بہتری کی وجہ سے ہمیں امید ہے موٹر سائیکل کی مانگ میں بھی اضافہ ہوگا۔ ملک میں نوجوانوں کی بڑی تعداد اور تیزی سے بدلتے ہوئے رجحانات کے ساتھ ہم بھی اپنے کاروبار کو مزید توسیع دے رہے ہیں تاکہ اعلی معیار، جدید ٹیکنالوجی اور مقامی مارکیٹ کے اعتبار سے اپنی مصنوعات کی فراہمی کا سلسلہ جاری رکھیں۔
یہ بات بالکل درست ہے کہ پاکستان میں نوجوان کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے اور تقریباً 37 فیصد شہری علاقوں میں رہتے ہیں۔ لہٰذا یہ ایٹلس ہونڈا کا نئی سرمایہ کاری سے متعلق فیصلہ تو معقول لگتا ہے۔ لیکن مجموعی مارکیٹ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ پاکستان کی مقامی مارکیٹ کے لیے زیادہ سودمند نہیں رہے گا کیوں کہ اس سے ایک ہی ادارے کی اجارہ داری مزید مستحکم ہوجائے گی اور اگر ایسا ہوا تو پھر من مانی قیمتیں اور معیارات پر سمجھوتہ کرنا مجبوری بن جائے گا۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اس وقت چند بڑے نام موٹر سائیکل کے شعبے میں نظر آ رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی ہونڈا کے عشر عشیر بھی نہیں۔
مالی سال 2013-14 کا اگر جائزہ لیں تو اس عرصے میں ہونڈا کی فروخت ہونے والی مصنوعات کی تعداد لاکھوں میں ہے۔پاک سوزوکی نے اس عرصے میں 24,356 موٹر سائیکل فروخت کیں جن میں GS150، GD110، GD110S، رائیڈر اور اسپرنٹر ایکو شامل ہیں۔ اسی دوران راوی نے 22,425 بائیکس فروخت کیں جن میں اسٹارم 125 کی تعداد 20,406 رہی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ابھی راوی اور پاک سوزوکی کے درمیان سبقت لے جانے کا مقابلہ جاری ہے لیکن ان دونوں کا مجموعہ بھی فروخت ہونے والی ہونڈا کے قریب نہیں۔
جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا کہ 2013 میں بھی ایٹلس ہونڈا نے 200 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی لیکن میرا نہیں خیال کہ ہمیں اس کے بعد کوئی بڑی تبدیلی نظر آئی ہوگی۔ ہم اب بھی وہی ہونڈا سی جی 125 دیکھ رہے ہیں جو 1976 میں بنائی گئی تھی اور یہی حال سی ڈی 70 کا بھی ہے۔ مانا کہ ڈریم اور ڈیلکس نامی بائیکس مارکیٹ میں موجود ہیں لیکن وہ کہیں سے بھی اس قابل نہیں لگتیں کہ کوئی ان پرلاکھوں روپے خرچ کرے۔
اس وقت یاماہا جاپان ایک ایسا ادارہ ہے جوپاکستان میں آنے کے لیے پرتول رہا ہے۔ اس سے قبل یہ دیوان یاماہا لمیٹڈ (DYL) کے ساتھ اشتراک ختم کر کے براہ راست مارکیٹ میں قدم جمانے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ گو کہ یہ پچھلے پانچ سالوں سے کوششوں میں مصروف ہیں تاہم ملک اسحاق ڈار کی بطور وزیر خزانہ تعینی کے ساتھ کامیابی نصیب ہوئی۔ اس کا براہ راست اثر ایٹلس ہونڈا پر پڑا اور انہوں نے انجینئرنگ اینڈ ڈیولپمنٹ بورڈ کو ٹیکنالوجی سے آراستہ نئی موٹر سائیکلیں پیش کرنے کے سہانے خواب بھی دکھائے جو اب تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے۔ ہونڈا اس وقت زیادہ رفتار والے انجن کی حامل سی سی بائیکس پیش کرنے کا ارادہ رکھتا تھا اور اس نے ہونڈا سی بی آر اور شیڈو کے نام سے موٹر سائیکل پیش کی تھیں لیکن اس کے لیے بھی 200 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری درکار نہیں ہوتی کیوں کہ یہ بیرون ملک سے منگوائی جاتی ہیں۔ ایٹلس نے اپنی جدید منصوبوں سے متعلق کافی شور شرابہ بھی کیا جس پر تقریباً 7 ملین ڈالر لاگ آئی تھی تاہم اس کے نتیجے میں بھی ہمیں ہونڈا سی ڈی ڈریم میسر آئی۔نئی چیز دیکھ کر خوشی تو ہوئی لیکن تکنیکی بنیادوں پر جب سی ڈی 70 اور سی ڈی ڈریم کا موازنہ کیا تو دونوں یکساں ہی نظر آئے۔اس حوالے سے وہ لوگ زیادہ بہتر بتاسکتے ہیں جنہوں نے ان موٹر سائیکلو کو چلایا ہو لیکن کم از کم میرے خیال سے تو ڈریم کو سی ڈی 70 کا شوخ ورژن کہہ سکتے ہیں۔
بہرحال، اس سرمایہ کاری سے ایٹلس ہونڈا نے تعداد میں ضروری اضافہ کرلیا اور آج سالانہ 6 لاکھ موٹر سائیکلیں تیار کر رہی ہے۔ مالی سال 2012-13 میں پہلی بار انہوں نے 6 لاکھ کا ہدف عبور کیا تھا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایٹلس ہونڈا نے دلکش اسپورٹس بائیک بنانا کیوں شروع کردیں جو کوئی خریدتا ہی نہیں ہے۔ اس دوران کوئی ایسی بائیک نظر نہیں آئی جسے عام شہری کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر تیار کیا جاتا اور اسے ہونڈا “پاکستانی انجینئرنگ کا شاہکار۔۔۔۔ فلانا فلانا ہونڈا” کہ کر فروخت کرتا۔ اور اب 100 ملین ڈالر کی رقم سے بھی ایٹلس ہونڈا صرف اپنی پیداوارا دُگنی کرنے جا رہا ہے۔
تو آئندہ سال سے ایٹلس ہونڈا 13 لاکھ موٹر سائیکلیں فراہم کرے گا۔ ہے تو خوشی کی خبر لیکن کوئی نئی اور پہلے سے بہتر چیز مارکیٹ میں آتی تو شاید ہم اور آپ زیادہ خوش ہوتے۔ ہونڈا پہلے ہی اتنے ساری موٹر بائیکس فروخت کرچکا ہے جس کا اندازہ آپ اوپر موجود گراف سے بھی لگا سکتے ہیں کہ موٹر سائیکل کی سال بہ سال فروخت کے ساتھ ہونڈا کی فروخت میں بھی بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ اب وہ اسے مزید بڑھانا چاہتے ہیں جس کا مطلب ہوا کہ پرانی 70 اور وہی 125پہلے سے بھی زیادہ تعداد میں نظر آئیں گے۔ برائے مہربانی مجھے بالکل غلط مت نہ سمجھیں کیوں کہ پاکستان میں سرمایہ کاری سے مجھے بھی اتنی ہی خوشی ہوئی جتنی کہ کسی دوسرے عام پاکستانی کو ہوئی ہے۔ لیکن میری خواہش ہے کہ ایٹلس ہونڈا کچھ نیا لے کر آئے۔ کچھ ایسا جسے دیکھ کر سب کے ہوش اڑ جائیں اور ہونڈا چلانے والوں کو اپنے ادارے پر فخر ہو۔ یاماہا YBR125 ہی کو دیکھ لیں کہ وہ کتنی خوبصورت ہے۔ اس کے علاوہ روڈ پرنس ویگو 150 کی مثال بھی دی جاسکتی ہے۔
لیکن سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ بھلا ہونڈا کو کیا پڑی ہے جو وہ نئے منصوبوں پر دماغ اور رقم لگانے کا خطرہ مول لے؟ جب ہماری عوام ہی پرانی چیزوں سے خوش ہورہی ہے تو بھلا جدت کی ضروری ہی کیا ہے؟ اگر ہم پرانے “بگ بگ” کرنے والے انجن سے خوش ہیں تو بھئی کوئی کمپنی کیوں ہماری مسرت ہم سے چھینے گی؟ ہم تو آج بھی یہی کہتے ہیں کہ “یار 125 کی جو آواز ہے نا۔۔۔۔ بس!!!” ہم یاماہا YBR125 اور سوزوکی جی ایس 150 ۔ جی ڈی 110 کی تعریف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ شور کم مچاتی ہیں لیکن بھئی کیا کہنے اس عوام کے جسے شور شرابے والی موٹر سائیکلیں پسند ہیں۔ اس لیے مجھے یقین کہ ان کی فروخت میں کمی نہیں آئے گی اور ہر دوسرا بندہ ہونڈا کے ان شاہکاروں کو پسند کرتا رہے گا۔
یہاں میں یاماہا کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ جن نے کم وقت میں کافی دھاک بٹھائی ہے۔ اس سے قبل راوی پیاگو نے روایتی سبقت توڑنے کی کوشش کی تھی اور اب یاماہا بھی یہی سعی کر رہی ہے۔ آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یاماہا آہستہ آہستہ پنپ رہی ہے اور ایسے لوگوں میں تیزی سے مقبول ہو رہی جو “ڈگ ڈگ” کی آواز کے بغیر موٹر سائیکل چلانا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی ترجیح بعد از استعمال فروخت کے بجائے اچھے انجن کی حامل موٹر سائیکل ہوتی ہے۔
ہونڈا ایٹلس کی نئی سرمایہ کاری سے ہونے والا سب سے مثبت پہلو ملازمتوں کے مواقع ہیں۔ لیکن کیا ہی اچھا ہوتا اگر ہونڈا محض محنت مزدوری کی نوکریوں کے علاوہ ملک میں موجود تخلیقی ذہنوں اور نت نئے تصورات پیش کرنے والوں کے لیے بھی کوئی جگہ رکھتی اور انہیں موقع دیتی کہ وہ ملک میں رہتے ہیں کوئی ایسی منفرد چیز تخلیق کریں جو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے لیے فید ثابت ہو۔