آٹو سیکٹر حکومت کی الیکٹرک گاڑیوں پر پالیسی کے خلاف

کابینہ کی جانب سے منظور کردہ نئی الیکٹرک وہیکل (EV) پالیسی پر مقامی آٹوموبائل انڈسٹری تنقید کر رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ EV پالیسی کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے آٹو سیکٹر کو مکمل اعتماد میں نہیں لیا تھا۔ اسٹیک ہولڈرز پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کی صنعت کو پنپتے دیکھنا چاہتے ہیں؛ البتہ مقامی صنعت کو نقصان بھی نہیں پہنچانا چاہتے۔

مقامی آٹومیکرز عدم اتفاق کا اظہار کر رہے ہیں کیونکہ اُن کی تجاویز پر غور نہیں کیا گیا اور نئی EV پالیس بنانے میں اُن سے مشورہ نہیں کیا گیا۔ آٹومیکرز سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیے بغیر یہ پالیسی کس نے بنائی اور منظور کی۔ 

وفاقی کابینہ نے گزشتہ منگل کو EV پالیسی کی منظوری دی تھی کہ جس کے تحت اگلے پانچ سالوں میں 1,00,000 الیکٹرک گاڑیاں درآمد کی جائیں گی۔ اس پالیسی کے تحت 2030ء تک حکومت 30 فیصد کاروں کو بجلی پر منتقل کرے گی۔ حکومت الیکٹرک گاڑیوں کی درآمد پر 1 فیصد جنرل سیلز ٹیکس لے گی۔ 

حکومت مختلف رعایتیں دے گی جیسا کہ الیکٹرک گاڑی کی مفت رجسٹریشن، جو عوام کے لیے پاکستان میں اِن گاڑیوں کو زیادہ سستا بنائے گا۔ ہیونڈائی نشاط گروپ نے بھی EV پالیسی کی منظوری پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ 

اس نے زور دیا ہے کہ وہ مارکیٹ میں آنے والا نیا ادارہ ہے اور آٹو سیکٹر میں بھاری سرمایہ کاری کر چکا ہے۔ مارکیٹ میں مثبت تاثر کے لیے ایسے اسٹیک ہولڈرز سے لازماً مشورہ لینا چاہیے۔ ہیونڈائی نشاط گروپ کے نمائندے نے مزید زور دیا کہ آٹوموبائل سیکٹر کی حالت بھی اچھی نہیں ہے اور اِن مشکل حالات میں ایک نئی پالیسی متعارف کروانا پوری صنعت کے لیے نقصان دہ ہے۔ 

ایسی پالیسی کے نتائج بیرونی قرضے میں اضافے کی صورت میں نکل  سکتے ہیں اور یہ ملازمت کے مواقع پاکستان سے بیرونِ ملک منتقل ہونے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ 

اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے ایک اور خدشہ پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کو چلانے کے لیے درکار بنیادی ڈھانچے کے حوالے سے ہے۔ تیل کی درآمدات پر سالانہ 2 ارب ڈالرز کی بچت بھی ایک بڑا سوال ہے اور اس سے مناسب انداز میں نمٹنا چاہیے۔ اس EV پالیسی کے مقاصد مثبت ہیں؛ لیکن پالیسی کی تیاری اور اس کی منظوری میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو لازماً شامل کرنا چاہیے تھا، خاص طور پر نئے آنے والے اداروں کو کہ جن سے آٹو سیکٹر میں سرمایہ کاری کے بدلے بڑے منافع کا وعدہ کیا گیا تھا۔ 

مزید یہ کہ پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹوموٹو پارٹس اینڈ ایکسیسریز مینوفیکچررز (PAAPAM) نے زور دیا کہ ملک میں پہلے ہی ایک آٹو ڈیولپمنٹ پالیسی نافذ ہے۔ اس صورت حال میں الیکٹرک گاڑیوں پر ایک نئی پالیسی لانے کا نتیجہ افراتفری کی صورت میں نکلے گا۔ حکومت کو دونوں پالیسیوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ نئے ادارے پاکستان میں اپنے منصوبوں کو محفوظ سمجھیں اور اپنا کام شروع کریں۔ سرکاری عہدیداروں نے چند اسٹیک ہولڈرز نے رابطہ کیا تاکہ ان کی رائے سنیں اور ضروری تبدیلیاں کریں۔ 

اپنے خیالات نیچے تبصروں میں پیش کیجیے اور نئی EV پالیسی پر اپنی رائے کے بارے میں ہمیں بتائیں۔ گاڑیوں کے حوالے سے مزید  تحاریر کے لیے آتے رہیے۔

Exit mobile version