کاروبار متاثر ہونے پر استعمال شدہ گاڑیوں کے امپورٹرز میدان میں آ گئے
استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے والوں نے حکومت سے اِن گاڑیوں کی امپورٹ کو کمرشلائز کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ ریونیو حاصل کیا جا سکے اور ممکنہ کار خریداروں کو انتخاب کے مزید مواقع دیے جائیں۔
استعمال شدہ گاڑیوں کے امپورٹرز بمقابلہ S.R.O. 52(1)/2019
قارئین کو یاد دلانا ضروری ہے کہ استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد، بالخصوص 660cc جاپانی گاڑیوں کی امپورٹ گزشتہ کئی مہینوں میں بہت کم ہوئی ہے۔ پاکستان میں درآمد کی جانے والی استعمال شدہ گاڑیوں کی بڑی تعداد (80 سے 90 فیصد) 660cc سے 1,000cc انجن رکھنے والی گاڑیوں کی ہوتی ہے۔ پاک ویلز نے مارچ 2019ء میں بتایا تھا کہ استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد میں فروری 2019ء میں 74 فیصد کمی آئی۔
اس شدید کمی کی وجہ S.R.O. 52(1)/2019کے اجراء کو قرار دیا جاتا ہے، جس میں حکومت نے کارامپورٹرز کے لیے ڈیوٹی امریکی ڈالرز میں ادا کرنا ضروری قرار دیا تھا۔
استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کی اجازت مندرجہ ذیل تین اسکیموں کے تحت ہے:
ٹرانسفر آف ریزیڈنس (TR)
بیگیج
گفٹ
اسکیم سے قطع نظر امپورٹ ڈیوٹی وہی ہے، جس نے گاڑیوں کی انجن گنجائش کو بڑھا دیا۔
مذکورہ بالا S.R.O کی وجہ بظاہر استعمال شدہ گاڑیوں کے امپورٹرز کے بجائے مقامی آٹوموبائل انڈسٹری میں نئے آنے والے اداروں، اسمبلرز اور مینوفیکچررز دونوں، کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ البتہ استعمال شدہ گاڑیاں امپورٹ کرنے والوں کا سمجھنا ہے کہ استعمال شدہ امپورٹڈ کاریں مقامی طور پر اسمبل اور تیار ہونے والی گاڑیوں کے مقابلے میں خصوصیات اور سیفٹی دونوں لحاظ سے مقامی صارفین کو زیادہ سہولیات پیش کرتی ہیں۔
اس کی روشنی میں وہ چاہتے ہیں کہ حکومت اس ٹریڈ کو کمرشلائز کرے، جو عوام اور حکومت دونوں کو سہولت دے گی۔
آٹوموبائل انڈسٹری کی تازہ ترین خبروں کے بارے میں جاننے کے لیے پاک ویلز پر آتے رہیے۔