گاڑی کی حفاظت: مہنگے طریقوں کے علاوہ دستیاب کم قیمت ٹریکرز

ہم پاکستانیوں کو ٹویوٹا کچھ زیادہ ہی پسند ہے۔ ہم اس کی محبت میں ایسے گرفتار ہوئے ہیں کہ چھوٹنے کی خواہش بھی نہیں رکھتے۔ چاہے یہ جاپانی ہو یا اپنی انڈس موٹرز، ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔اگر ٹویوٹا ہے تو بس ہمیں پسند ہے! اور ٹویوٹا میں بھی کرولا سب سے زیادہ ہماری لاڈلی ہے۔جتنا ایک عام اور شریف پاکستانی ٹویوٹا پسند کرتا ہے اتنا ہی چور اچکے بھی اسے چاہتے ہیں۔ جس طرح میں اور آپ پیسہ پیسہ جوڑ کرگاڑی خریدنے کی خواہش پوری کرتے ہیں اسی طرح گاڑی چوری کرنے والے بھی بہت محنت سے آپ کےشوق و فخر کو اپنے ہمراہ لے جاتے ہیں۔

میرے ایک دوست کی کرولا ایگزیو اس کے اپنے گیراج سے چوری ہوگئی۔ چوروں نے جو طریقہ اپنایا اسے سوچ کر آج بھی حیرتوں کے سمندر میں ڈوب جاتا ہوں۔ چوروں نے میرے دوست کے گھر کی دیوار پھلانگی اور گیراج میں داخل ہو کر گاڑی کو نامعلوم کس آلے سے کھولا اور اس میں اطمینان سے بیٹھ گئے۔ صبح جب میرے دوست کے ڈرائیور نے گاڑی نکالنے کے لیے گیراج کا دروازہ کھولا تو چوروں نے برق رفتاری سے گاڑی چلادی اور پھر یہ جا وہ جا۔ یہ تمام واقعہ محض چند سیکنڈ میں رونما ہوا لیکن اس کے لیے چوروں نے نامعلوم کتنا وقت گیراج میں کھڑی گاڑی میں بیٹھ کر گزارا۔ خدا ہی جانتا ہے کہ پھر اس گاڑی کے ساتھ کیا ہوا کیوں کہ میرے دوست کو تو دوبارہ اپنی گاڑی دیکھنے کی توفیق نہ ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: گاڑیوں و موٹر سائیکل کی چوری میں اضافہ؛ متعلقہ شعبے کے لیے لمحہ فکریہ

مقامی طور پر تیار ہونے والی کرولا کا شمار سب سے زیادہ چوری ہونے والی گاڑیوں میں کیا جاتا ہے۔ چلیے ایک اور عزیز کی مثال دیتا ہوں جو بیرون ملک سے چند دنوں کے پاکستان تشریف لائے۔ سفر میں آسانی کے لیے انہوں نے کرائے پر گاڑی خریدنا مناسب سمجھا لہٰذا گاڑیوں کے کاروبار سے منسلک ایک صاحب کے پاس گئے اور مدعہ بیان کیا۔ کرائے پر گاڑیاں فراہم کرنے والے صاحب نے واضح الفاظ میں کہا کہ 11 ویں جنریشن کی کرولا سب گاڑیوں سے بہترین ہے لیکن یہ چٹکی بجاتے چوری ہوجاتی ہے۔ یوں میرے عزیز ان کے مشورے سے ہونڈا سِٹی 2012 لے آئے۔

کرولا کے صارفین طویل عرصے سے گاڑی میں ایمبولائزر کی کمی سے متعلق شکایت کرتے رہے ہیں۔ جب 11 ویں جنریشن کی ٹویوٹا کرولا تیاری کے مراحل میں تھی، تب بھی بہت سے لوگ امید کر رہے تھے کہ اس میں زیادہ نہیں تو مناسب حفاظتی سہولیات ضرور شامل ہوں گی۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ پاک سوزوکی بھی کئی سالوں سے سوزوکی بلینو میں ایمبلائزر فراہم کر رہی ہے۔ لیکن ٹویوٹا کے ماہرین نامعلوم کیوں اب تک اسے شامل کرنے سے کتراتے رہے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ انہوں نے گاڑیوں کی زیادہ فروخت کو چوریوں میں اضافے سے منسلک سمجھ لیا ہے۔ اسی لیے وہ 25 لاکھ کی ٹویوٹا کرولا آلٹِس گرانڈے کے ساتھ بھی کسی قسم کی حفاظتی سہولت شامل کرنے سے متعلق سوچتے بھی نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ہونڈا سِوک اوریئل پروسمیٹک بمقابلہ ٹویوٹا کرولا آلٹس گرانڈے

اس صورتحال میں گاڑیاں رکھنے والوں کے پاس بازار میں دستیاب عام سے حفاظتی نظام استعمال کرنے کا انتخاب موجود ہے لیکن اس کی اہمیت وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوچکی ہے۔ وجہ یہ کہ اس نظام میں گاڑی کے قریب سے بھی کوئی گزرجائے تو ‘خطرے کی گھنٹی’ بجنا شروع ہوجاتی ہے۔ جب ایسا کئی بار ہو تو پھر گاڑی کا مالک بھی گھنٹی بجنے پر یہ کہہ کر مٹی ڈال دیتا ہے کہ ‘کوئی بچہ ہاتھ مار گیا ہوگا’ ۔ یوں اس کی افادیت کم ہوتے ہوتے ختم ہی ہوگئی۔ اگر آپ کے پاس سوزوکی مہران ہے تو پھر مذکورہ نظام کے ساتھ آپ پیڈلاک کے ذریعے اسٹیئرنگ لاک استعمال کرسکتے ہیں جس سے آپ کی گاڑی یقیناً محفوظ رہے گی۔

لیکن اگر آپ کے پاس کوئی مہنگی گاڑی ہے اور آپ گاڑی کی حفاظت ہر صورت ممکن بناتے ہیں تو لے دے کر نجی اداروں کی خدمات حاصل کرنا سودمند ثابت ہوسکتا ہے۔ گاڑیوں پر نظر رکھنے والا نظام، جسے عرف عام میں ٹریکر کہا جاتا ہے، طویل عرصے سے پاکستان میں دستیاب ہے۔ پہلے یہ بہت زیادہ مہنگے ہوا کرتے تھے تاہم اب ٹریکر کمپنیوں کے درمیان بڑھتی ہوئی مسابقت اور گاڑیوں میں اضافے کے بعد ان کی قیمت میں کافی کمی آچکی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق صرف 30 سے 50 ہزار روپے میں دستیاب ٹریکر کے ذریعے گاڑیوں کی طویل عرصے تک حفاظت ممکن بنائی جاسکتی ہے۔ کچھ ادارے ماہانہ ور کچھ سالانہ بنیادوں پر صارفین سے ادائیگی لیتے ہیں۔ میں نے اس ضمن میں متعدد ویب سائٹس دیکھیں اور ایک ٹریکر کمپنی پر صرف 400 روپے ماہانہ کا پیکیج بھی دستیاب تھا۔ گاڑیوں کا بیمہ کرنے والے ادارے بھی ٹریکر کا نظام لازمی قرار دے چکے ہیں۔ اس کی ایک بنیادی وجہ تو سادی سی ہے اور وہ یہ کہ ٹریکر کمپنی دن کے 24 گھنٹوں اور ہفتے کے 7 دن آپ کی گاڑی پر نظر رکھے گی۔چاہے کوئی بھی تاریخ یا وقت ہو، آپ کی گاڑی ان کی نظروں میں رہے گی۔ کسی بھی ناخوشگوار واقعے کی صورت میں یہ ٹریکر کمپنیاں گاڑی کو بند یا پھر لاک بھی کرسکتی ہیں۔ زیادہ مہنگے نظام تو آپ کو گاڑی کی لمحہ بلمحہ مقام شناسی کی سہولت بھی فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ گاڑی اسٹارٹ ہوتے ہی ایس ایم ایس وصول کرنے کا نظام بھی قابل عمل ہوچکا ہے۔ غرض کہ ٹریکر کے بے شمار فوائد ہیں۔ البتہ پرانےزمانے کے ٹریکر کا استعمال جاری رکھنے یا کسی غیر معیار ادارے سے ٹریکر لگوانے سے آپ اپنی گاڑی سے ہاتھ دھو بیٹھ سکتے ہیں کیوں کہ چند پرانے ٹریکر نظام موبائل فون کی جی ایس ایم ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہیں جنہیں روکنا یا قابو کرنا دور جدید میں زیادہ مشکل نہیں رہا۔

بہرحال، گاڑی میں ٹریکر کا استعمال کارگر لیکن مہنگا ہے۔ اس کے علاوہ بھی یہ ایک ارزاں قیمت طریقے موجود ہیں جن میں ٹرکنگ کِٹ بھی شامل ہے۔ یہ کِٹ آپ کسی بھی آن لائن اسٹور علی ایکسپریس، امیزون یا ای بے سے خریدسکتے ہیں۔ یہاں GSM GPRS car trackers لکھ کر تلاش کریں تو آپ کو ایک سے بڑھ کر ایک ٹریکر دستیاب ہوگا۔ میں نے خود بھی ایسا ہی کیا تو میرے سامنے 10 ڈالر سے 35 ڈالر تک کی کِٹس سامنے آگئیں۔ اگر آپ کے پاس گاڑیوں کا ماہر مکینک ہے یا آپ خود گاڑی کے برقی نظام کو سمجھتے ہیں تو پھر یہ ٹریکر باآسانی گاڑی میں لگا سکتے ہیں۔ میرے ایک دوست نے بالکل اسی طریقے سے اپنی سِوک کے لیے ٹریکر منگوا کر لگایا جو اب بھی بغیر کسی مسئلے کے کام کر رہا ہے۔ ان میں کئی ایک جدید سہولیات سے بھی آراستہ ہیں جن میں گاڑی کے سفری مقامات کی حد طے کرنے کی سہولت بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ یہ آپ کو ہر ہر اہم موقع پر ایس ایم ایس کے ذریعے باخبر بھی رکھ سکتے ہیں۔ اب سے ایک سال قبل تک ٹریکر کی مکمل کِٹ 80 ڈالر میں دستیاب تھی۔

لیکن یہاں ایک بڑا مسئلہ ہے۔ پاکستان میں ٹیلی کمیونی کیشنز کے معاملات دیکھنے والا ادارہ پی ٹی اے (پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی) نے جی ایس ایم استعمال کرنے والے تمام آلات پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ جس دوست کاذکر پیچھے گزرا اس نے 5،6 ٹریکر منگوائے تھے جن میں سے کچھ پکڑ لیے گئے۔جی ایس ایم استعمال کرنے والی کسی بھی چیز کودرآمد کرنے سے قبل آپ کو پی ٹی اے سے اجازت نامہ درکار ہوگا۔ملک میں کام کرنے والی متعلقہ نجی ادارے تمام قانونی تقاضے پورے کر کے ایسے آلات منگواتی اور فروخت کرتی ہیں۔

اگر آپ اس کے علاوہ کوئی دوسرا کم قیمت طریقہ استعمال کرنا چاہیں تو جی پی ایس ٹریکنگ ٹیگز حاصل کرلیں۔ یہ مختصر سے آلات گاڑی میں لگا کر آپ سافٹویئر کے ذریعے اپنے فون سے بھی گاڑی پر نظر رکھ سکتے ہیں۔ یہ ٹیگز دراصل صرف گاڑیوں کے لیے مخصوص بلکہ انہیں پالتو جانوروں اور دیگر اشیاء کے ساتھ بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ مختلف انداز میں دستیاب ہوتے ہیں اور ان کی قیمت بھی بہت کم ہوتی ہے۔ مثال کے لیے ایک تصویر پیش خدمت ہے۔

یہ مضمون یہاں ختم ہورہا ہے لیکن ٹریکر کی فہرست ناتمام ہے۔ آپ گھر پر بیٹھ کر اپنے پرانے فون سے بھی گاڑی کے لیے ٹریکر بناسکتے ہیں جو جی پی ایس کی مدد سے آپ کو گاڑی سے جوڑے رکھتا ہے۔ یہ ایک علیحدہ اور مفصل موضوع ہے جس پر آئندہ بلاگ پر روشنی ڈالیں گے۔

Exit mobile version