دنیا کو حیران کردینے والی چینی گاڑیاں (پہلی قسط)

1 388

چینی کار ساز ادارے مستقبل میں اپنی گاڑیاں برآمد کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں جس سے متعدد یورپی اور امریکی اداروں کو شدید “خطرات” لاحق ہوسکتے ہیں۔ اس وقت چینی ادارے کافی حد تک اپنی مقامی مارکیٹ کی مانگ پوری کر رہے ہیں جو تعداد کے اعتبار سے بہت وسیع ہے۔ اب چینی کار ساز اداروں کی جانب سے مستقبل کی منصوبہ بندی میں اپنی مصنوعات بیرون ممالک متعارف کروانا بھی شامل ہے۔ اگر اس وقت چینی ادارے اپنی تیار کردہ مصنوعات کا صرف 10 فیصد بھی برآمد کردیں تو ہمیں اپنی مقامی مارکیٹ میں شدید مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ فیات اور کرایسلر جیسے کار ساز اداروں نے مکمل تیاری نہ کی تو وہ چین کی آمد کو برداشت نہیں کرپائیں گے۔ ان اداروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسابقت کی فضا میں اپنے قدم مضبوطی سے جمائے رکھنے کی تیاری کریں کیوں کہ بالآخر مقابلے کا وقت آ کر ہی رہے گا۔

یہ الفاظ فیات اور کرایسلر گروپ کے سربراہ سرجیو مارخیونے کے ہیں جو سال 2011 میں مغربی کار ساز اداروں کو لاحق خطرات سے آگاہ کرنے کے لیے ادا کیے گئے تھے۔ اور یہ تمام باتیں بالکل درست ثابت ہوئیں۔ چین کی بڑھتی ہوئی برآمدات کے ذریعے چینی کار ساز اداروں نے شعبے کے عالمی شہرت یافتہ اداروں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے اور جیسا کہ سرجیو مارخیونے نے کہا کہ یہ ادارے اپنی تیاری کرے بغیر اس مقابلے کا سامنا نہیں کرسکتے۔

Sergio Marchionne
سرجیو مارخیونے

ہمارے یہاں گاڑیوں کی صنعت ، جو کہ شاید دنیا کی کمزور ترین صنعتوں میں سے ایک ہے، میں ہمیں بہت کم مصنوعات دستیاب ہیں جو برآمدی معیارات کے اعتبار سے بھی کمتر ہیں۔ بازار میں دستیاب زیادہ تر گاڑیوں کے ماڈلز یا تو متروک ہوچکے ہیں یا پھر ماحولیاتی تحفظ اور حفاظتی معیارات سے متعلق قوانین پر پورے نہیں اترتے۔ حال ہی میں یورپی اداروں کی جانب سے پاکستانی مارکیٹ سے استفادہ حاصل کرنے سے متعلق گفت و شنید اور پاک چین اقتصادی راہداری کی تکمیل کے بعد چینی اداروں کی پاکستانی مارکیٹ تک رسائی کی خبریں گردش کر تی رہی ہیں۔ اس صورتحال میں یہاں موجود تین جاپانی کار ساز اداروں سوزوکی، ٹویوٹا اور ہونڈا کو مقامی مارکیٹ میں اپنی برتری برقرار رکھنے کے لیے سخت جدوجہد کرنا ہوگی۔

چینی مصنوعات بشمول گاڑیوں سے متعلق غلط فہمی

چینی مصنوعات اب ویسی نہیں رہیں جیسا کہ ہمارے یہاں عام مفروضہ قائم ہے۔ پچھلی دس سالوں میں ہم چینی مصنوعات کو غیر معیاری سمجھتے آرہے ہیں حالانکہ اس دہائی میں چینی اداروں نے اپنی مصنوعات کو انتہائی معیاری اور قابل بھروسہ بنایا ہے جو جاپانی مصنوعات سے زیادہ اچھی نہیں تو کمتر بھی نہیں کہی جاسکتیں۔ چین میں تیار ہونے والی مصنوعات کئی ممالک کے مقامی اداروں کو آئندہ سالوں میں سخت مشکلات سے دو چار کرسکتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق چین میں اس وقت گاڑیاں بنانے والے 130 ادارے ہیں اور یہ اتنی زیادہ تعداد میں گاڑیاں تیار کرتے ہیں کہ ہم صرف سوچ ہی سکتے ہیں۔ بہرحال، اس وقت تو ہمیں چینی اداروں کی تیار کردہ بہترین گاڑیوں تک رسائی نہیں اور جو تھوڑی بہت ہمیں نظر آتی ہیں ان سے ہم چینی اداروں کی کارکردگی بھی نہیں جانچ سکتے ہیں۔ البتہ ایسی گاڑیوں سے متعلق ضرور بات کرلینی چاہیے کہ جنہوں نے دنیا کو ششدر کردیا اور وہ آئندہ سالوں میں پاکستان میں متعارف کروائی جاسکتی ہیں۔

چانگان ایاڈو

u_201503191421567194068110
چانگان کے نام سے اگر آپ کے ذہن میں قراقرم موٹرز کی جانب سے پیش کردہ قدیم زمانے کی پک اپ آتی ہے تو اس خیال کو رد کردیں۔ چانگن چین کا نجی سرکاری کار ساز ادارہ ہے جسے چینی افواج نے قائم کیا۔ چانگان کا کارخانہ 2 کروڑ مربع میٹر تک پھیلا ہوا ہے اور اس میں 30 ہزار سے زائد افراد کام کرتے ہیں۔ چانگان گروپ چین کا سب سے بڑا کار ساز ادارہ ہےاور 50 بڑے کاروباری اداروں میں سر فہرست بھی ہے۔

ایاڈو، تحقیق و ترقی کا ثمر

جس گاڑی سے متعلق ہم بات کر رہے ہیں وہ چانگان کی جانب سے 5 ممالک اور 9 مقامات میں کی گئی تحقیق کا نتیجہ ہے۔ یہ تحقیق چانگان نے اپنے اطالوی ڈیزائن سینٹر کے ساتھ مکمل کی جس کے بعد ایاڈو کی تیاری عمل میں آئی۔ ایاڈو 1500 سی سی ٹربو چارجڈ انجن اور 1600 سی سی نیچرلی ایسپریٹڈ انجن کے ساتھ پیش کی جاتی ہے۔ یہ دونوں انجن ‘بلو کور (Blue Core)’ کہلاتے ہیں جو چانگان کے بنائے گئے ماحولیاتی تحفظ کا معیار ہے۔ عام طور پر چینی ادارے اپنی گاڑیاں مقامی نمائشوں میں پیش کرتے ہیں اور بعد میں بین الاقوامی مارکیٹ میں متعارف کرواتے ہیں۔ لیکن ایاڈو کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اسے سال 2012 میں پہلی مرتبہ فرینکفرٹ آٹو شو کے دوران پیش کیا گیا۔ ایاڈو کو ہیچ بیک کی طرز پر بھی پیش کیا جاتا ہے جس کا نام ایاڈو XT ہے۔ حال ہی میں منظر عام پر آنے والے ایاڈو EV میں بجلی سے چلنے کی صلاحیت بھی متعارف کروائی گئی ہے۔ ایاڈو بشمول XT اور EV مجموعی طور پر 36 مختلف انداز میں دستیاب ہے۔ اس کی قیمت 74,900 یوآن (11.9 لاکھ پاکستانی روپے) سے شروع ہو کر 119,900 یوآن (19.13 لاکھ پاکستانی روپے) تک جاتی ہے۔

جیلی ایمگرینڈ EC7

u_201110250826421893753
سال 2007 میں چین کا نجی کار ساز ادارہ جیلی پاکستانی مارکیٹ میں CK ماڈل کے ساتھ داخل ہوا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب گاڑیاں بنانے والے چینی اداروں نے بیرون ملک کام کی شروعات کی تھی۔ یورپی مارکیٹ میں جو چینی گاڑیاں بری طرح ناکام ہوئیں یہ بھی ان میں سے ایک تھی۔ کئی ایک جانچ میں بھی جیلی کی گاڑیوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور ان کی متعدد ویڈیوز یوٹیوب پر بھی ڈال دی گئیں۔ اس رسوا کن صورتحال کے باوجود چینیوں نے ہمت نا ہاری اور اپنی محنت و لگن سے صرف پانچ سال میں انقلابی تبدیلیاں لے کر آئے۔ حتی کہ سال 2012 میں جیلی ایمگرینڈ EC7 کو یورو این کیپ کی جانب سے 4 اسٹار ریٹنگ سے نوازا گیا۔

جیلی ایمگرینڈ EC7 اور ننجیانگ MG6 دونوں ہی نے 4 اسٹار ریٹنگ حاصل کی جس سے یورپ میں چین کی مصنوعات میں بہتر حفاظتی معیارات کو ثابت کرتا ہے۔ یورو این کیپ کے سیکریٹری جنرل میخیل وین نے کہا
یہ نتائج چینی گاڑیوں کی صنعت میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ چینی کار ساز ادارے دور حاضر کی ضروریات اور گاڑی میں حفاظتی معیارات بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کی موجودہ کامیابی کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ بہت جلد یہ 5 اسٹار ریٹنگ بھی حاصل کرلیں گے۔

EC7 دنیا کے کئی خطوں بشمول مشرق وسطیٰ می دستیاب ہے۔ اس میں 1500 سی سی اور 1800 سی سی انجن لگایا گیا ہے۔ EC7 بھی ہیچ بیک طرز پر پیش کی جاکی ہے جسے EC7-RV کا نام دیا گیا ہے۔ جیلی اس گاڑی کو ٹربو چارجڈ انجن اور ہائبرڈ ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنے پر بھی کام کر رہی ہے اور توقع ہے کہ بہت جلد ان کی محنت رنگ لے آئے گی۔ EC7 کی قیمت 68,800 یوآن (10.9 لاکھ پاکستانی روپے) سے شروع کر 85,800 یوآن (13.6 لاکھ پاکستانی روپے) تک جاتی ہے۔

بی وائے ڈی سوروئی

u_20121025112704227213
بی وائے ڈی (Build Your Dreamsکا مخفف ہے) چینی کار ساز ادارہ ہے جس نے 1995 میں صرف 30 لوگوں کے ساتھ کام کا آغاز کیا اور سال 2003 میں قابلِ ریچارج بیٹری بنانے والی دنیا کی دوسری بڑی کمپنی بن گئی۔ اسی سال بی وائے ڈی کمپنی لمیٹڈ نے سنچوان آٹو موبائل خرید کر گاڑیوں کے شعبے میں قدم رکھا۔ آج بی وائے ڈی کمپنی لمیٹڈ دنیا بھر میں 40 ہزار سے زائد ملازمین کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ بی وائے ڈی چین میں برقی و ہائبرڈ گاڑیاں بنانے والا اولین ادارہ بھی رہا ہے۔ بی وائے ڈی F3DM کا شمار دنیا میں سب سے زیادہ تیار ہونے والی ہائبرڈ گاڑیوں میں کیا جاتا ہے۔

نقل کرنے کی مہارت

BYD-F3
بی وائے ڈی F3

بی وائے ڈی گاڑیوں کی نقل بنانے کے لیے بھی مشہور ہے۔ ان کی نصف سے زیادہ گاڑیاں جاپانی کار ساز ادارے ٹویوٹا سے مکمل یا جزوی میل کھاتی ہیں۔ ان کی سب سے کامیاب گاڑی بی وائے ڈی F3 (جس طرز پر F3DM بھی بنائی گئی) کا اگلا حصہ نویں جنریشن E120 ٹویوٹا کرولا جیسا اور پچھلا حصہ ہونڈا سِٹی iDSI جیسا ہے۔ یہ گاڑی کئی سالوں تک چین میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی گاڑیاں میں سرفہرست رہی۔ سال 2012 میں اس کی جگہ بی وائے ڈی سوروئی نے لےلی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بی وائے ڈی F3 کی صرف ایک ماہ کی فروخت پاکستان کےپورے مالی سال کے دوران فروخت ہونے والی گاڑیوں سے کہیں زیادہ تھی۔

بی وائے ڈی F3 کی جگہ لینے والی سوروئی دنیا کی پہلی مکمل ریموٹ کنٹرول گاڑی ہے۔ اس گاڑی کو ریموٹ کے ذریعے نہ صرف اسٹارٹ کیا جاسکتا ہے بلکہ روشنیوں کا استعمال، اسٹیئرنگ ویل چلانا، 2 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی کو آگے اور پیچھے کرنا بھی ممکن ہے۔ یہ منفرد خصوصیات گاڑی کو کسی محدود جگہ پر کھڑی کرنے کے لیے کافی کارآمد ہیں۔

ذیل میں ایک اور ویڈیو ملاحظہ کیجیے کہ جس میں ایک خاتون ریموٹ کے ذریعے اپنی بی وائے ڈی سوروئی کو استعمال کر رہی ہیں۔ اس بات کی تصدیق تو ممکن نہیں کہ آیا یہ ویڈیو حقیق ہے یا محض ایک خیال، لیکن یہ بات تو طے ہے بی وائے ڈی کی ٹیکنالوجی حیرت انگیز اور قابل تعریف ہے۔ سوروئی 1500 سی سی ٹربو چارجڈ ڈائریکٹ انجکشن انجن بمع ڈیول کلچ ٹرانسمیشن کے ساتھ پیش کی جاتی ہے۔ اس کی قیمت 65,900 یوآن (10.5 لاکھ روپے) سے شروع کر 99,900 یوآن (15.9لاکھ روپے) تک جاتی ہے۔

مزید تصاویر ذیل میں ملاحظہ کریں

مضمون کا اگلا حصہ کچھ دنوں بعد پیش کیا جائے گا۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.