کیا پاکستانی ہائی لکس ریو میں وہیکل سٹیبلٹی کنٹرول کا نہ ہونا صارفین کے لیے پریشانی کا باعث ہے؟

ٹویوٹا انڈس نے 6 دسمبر 2016 کو ہائی لکس ریو متعارف کروائی اور بہت سے حلقوں میں اسے پاکستان کا بادشاہ بھی تصور کیا جاتا رہا، امید تھی کہ یہ گاڑی طوفانی انداز میں مارکیٹ کو اپنے قبضے میں کر لے گی۔ پی اے ایم اے کے اعداد و شمار کے مطابق ٹویوٹا جنوری تا مئی 2017 تک ہائی لکس ریو کے 2976 یونٹ فروخت کر چکا ہے اور یہ تعداد پچھلے سال کے مقابلے میں 42.6 فیصد زیادہ ہے۔ اگر اس میں چھ سے سات ماہ کے انتظار کے دورانیے اور 5 سے 6 لاکھ روپے کے پریمیم کو بھی شامل کیا جائے تو یہ کہنا بہت آسان ہوجاتا ہے کہ یہ ایک کامیاب گاڑی ہے۔ تو شاید اب آپ یہ سوچ رہے ہوں کہ اس کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ تو اس کا جواب ہے کہ اس گاڑی کے حفاظتی انتظامات میں کافی کمی موجود ہے۔ ٹویوٹا انڈس بلا شبہ اس گاڑی میں اینٹی لاک بریکنگ سسٹم(اے بی ایس)، الیکٹرونک بریک ڈسٹری بیوشن (ای بی ڈی)، اور بریک اسسٹنٹ (بی اے) فراہم کر رہا ہے مگر وہیکل سٹیبلٹی کنٹرول (وی ایس سی) کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ یہ ایک زبردست حفاظتی نظام ہے جو کہ کسی رکاوٹ سے بچنے کے دوران تیزی سے موڑ کاٹتے ہوئی گاڑی کو سڑک پر پھسلنے سے بچاتا ہے۔ آپ میں سے بہت سے لوگ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ کیا اے بی ایس، ٹریکشن کنٹرول، اور ای بی ڈی وہی نتائج حاصل نہیں کر سکیں گے؟ تکنیکی طور پر اس کا جواب ہے بالکل نہیں! یہ تمام الیکٹرونک حفاظتی انتظامات ایک دوسرے سے بہت مماثلت رکھتے ہیں اور انہیں سرسری سی نظر سے سمجھنا بہت مشکل ہے۔ اس میں اچھی خبر یہ ہے کہ اس سہولت سے فائدہ اٹھانے کے لیے آپ کو اسے سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن بری خبر یہ ہے کہ پاکستان میں آنے والی بہت سی گاڑیوں میں یہ سہولت موجود نہیں ہوتی۔ نیچے میں نے تفصیل سے بیان کیا ہے کہ اے بی ایس، ٹریکشن کنٹرول، ای بی ڈی، وی ایس سی، اور بریک اسسٹنٹ کیا ہوتے ہیں اور یہ کیسے کام کرتے ہیں۔

وہیکل سٹیبلٹی کنٹرول: یہ ایک مکمل طور پر کمپیوٹرائزڈ الیکٹرونک سسٹم ہے جو ہر ٹائر پر انفرادی طور پر بریک اپلائی کرتا ہے اور انجن کی پاور کو کم کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ڈرائیور کا گاڑی پر مکمل کنٹرول برقرار رہے۔ مختصر یہ کہ وہیکل سٹیبلٹی کنٹرول گاڑی کو پھسلنے سے بچاتا ہے اور یہ الیکٹرک سٹیبلٹی کنٹرول، وہیکل سٹیبلٹی اسسٹنٹ، اور دیگر کئی ناموں سے جانا جاتا ہے۔ یہ سسٹم مرسڈیز نے 1990 میں متعارف کروایا تھا اور یہ گاڑیوں کے خطرناک حادثات کو کم کرنے میں بہت معاون ثابت ہوا۔ وہیکل سٹیبلٹی کنٹرول سسٹم میں بنیادی طور پر وہیل سپیڈ سنسر، کنٹرول ماڈیول، سٹیئرنگ اینگل سنسر، یاء ریٹ سنسر، ایسلرومیٹر، اور ہائیڈرولک ماڈولیٹر شامل ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ ہائڈرولک ماڈیولیٹر وہیکل سٹیبلٹی کنٹرول اور اے بی ایس کے لیے ایک جیسا استعمال ہوتا ہے جس کا مطلب ہے کہ اے بی ایس سے لیس گاڑی میں وہیکل سٹیبلٹی کنٹرول شامل کرنے کے لیے صرف یاء سنسر، ایسلرومیٹر، اور سٹئیرنگ اینگل سنسر کی ضرورت ہوتی ہے۔ تو یہ کام کیسے کرتا ہے؟ یہ بات بہتر طور پر سمجھانے کے لیے میں یہ آپ کو دکھانا چاہوں گا۔ آپ نیچے دی گئی ویڈیو میں اس کے کام کو دیکھ سکتے ہیں۔

اینٹی لاک بریکنگ سسٹم: یہ سسٹم ممکنہ طور پر سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر استعمال ہونے والا حفاظتی سسٹم ہے، اس کا مقصد کیا ہے؟ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ روائیتی بریکس ٹائروں کو جام کر دیتی ہیں جب انہیں تیزی سے استعمال کیا جائے جس کی وجہ سے گاڑی کے رکنے کا وقت بڑھنے کے ساتھ ساتھ ڈرائیور کا گاڑی پر سے کنٹرول بھی کم ہوجاتا ہے۔ اے بی ایس سنسر ٹائروں کے جام ہونے پر نظر رکھتے ہیں اور بہت مختصر لمحہ کے لیے بریکس کو ریلیز کرتے ہیں تا کہ گاڑی کو پھسلنے سے بچایا جاسکے۔ ایک سٹینڈرڈ اینٹی لاک بریکنگ سسٹم میں چاروں وہیلز پر سپیڈ سنسر، ہائڈرولک پمپ، چار ہائڈرولک والو، اور ایک کنٹرولر شامل ہوتا ہے۔ نیچے تفصیل سے دکھایا گیا ہے کہ ایک اے بی ایس کس طرح سے کام کرتا ہے۔

ٹریکشن کنٹرول: ٹریکشن کنٹرول سسٹم اے بی ایس کے سپیڈ سنسرز کو استعمال کرتے ہوئے چاروں وہیلز کی رفتار کو دیکھتا ہے اور اگر کوئی بھی ٹائر پھسلنا شروع ہوتا ہے تو ٹریکشن کنٹرول انجن کی رفتار کم کر دیتا ہے جس سے ٹائر کو ٹریکشن واپس حاصل کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ ٹریکشن کنٹرول سسٹم پھسلنے والے ٹائر پر بریک بھی اپلائی کر دیتا ہے جس سے انجن کی پاور باقی ٹائروں کو منتقل ہوجاتی ہے اور پھسلنے والا ٹائر جلد اپنی ٹریکشن حاصل کر لیتا ہے مگر اس سب کا دارومدار سطحی حالات پر ہوتا ہے۔ نیچے دی گئی ویڈیو میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایک ٹریکشن کنٹرول سسٹم کیسے کام کرتا ہے۔

بریک اسسٹنٹ: یہ ایک انتہائی موثر حفاطتی فیچر ہے جو ڈرائیوروں کو ایمرجنسی کی حالت میں فوری طور پر گاڑی روکنے میں مدد دیتا ہے۔ ای سی یو پہلے سے موجود بریکنگ ویلیو کے ساتھ موازنہ کرتا ہے اور اگر ڈرائیور بریک پہلے سے دی گئی ویلیو سے زیادہ دباتا ہے تو بریک اسسٹنٹ کام کرتے ہوئے گاڑی کو بہت جلدی روکنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ نیچے دی گئی ویڈیو میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بریک اسسٹنٹ کیسے کام کرتا ہے اور اس کے بغیر گاڑی کو رکنے میں کتنی مشکل پیش آتی ہے۔

الیکٹرونک بریک ڈسٹری بیوشن: الیکٹرونک بریک ڈسٹری بیوشن بریک فورس کو بڑھاتا ہے اور تمام ٹائروں پر بریک فورس کو مناسب انداز میں اپلائی کرتاہے جس سے گاڑی فش ٹیلنگ کے بغیر بہت جلد رک جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک لوڈڈ گاڑی کو جب بریک لگائی جاتی ہے تو اس میں موجود سامان آگے کی طرف حرکت کرتا ہے جس سے اس کے پچھلے ٹائروں کی ٹریکشن کم ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں گاڑی کے فش ٹیلنگ کے چانس بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ یہ سسٹم گاڑی میں موجود وزن کے حساب سے بریک فورس کو تقسیم کرتا ہے، جس کے نتیجے میں خالی گھومنے والے ٹائروں پر کم بریک فورس جاتی ہے اور پہلے سے بہتر بریکنگ والے ٹائروں پر زیادہ فورس استعمال ہوتی ہے جس کے نتیجے میں گاڑی بہت جلد اور بغیر پھسلے رک جاتی ہے۔ نیچے دی گئی ویڈیو میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایک الیکٹرونک بریک ڈسٹری بیوشن سسٹم کیسے کام کرتا ہے۔

موز ٹیسٹ کیوں اور کتنا اہم ہے؟

ہم سیفٹی سسٹم پر تفصیل سے بات کر چکے ہیں، آئیے اب ہم اپنی اصل بات کی طرف واپس آتے ہیں۔ پاکستانی ہائی لکس ریو میں وہیکل سٹیبلٹی کنٹرول نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مشکل حالات میں ڈرائیور کا اس پر کنٹرول کرنا مشکل ہوسکتا ہے۔ سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ گاڑی امریکہ، تھائی لینڈ سمیت دیگر کئی ممالک میں وہیکل سٹیبلٹی کنٹرول کےساتھ آتی ہے مگر پھر بھی یہ گاڑی موز ٹیسٹ پاس کرنے میں ناکام رہی۔

نیچے ہائی لکس ریو کے پہلے موز ٹیسٹ کی ویڈیو دی گئی ہے:

موز ٹیسٹ ایک انتہائی کارآمد ٹیسٹ ہے جس کے زریعے اس بات کا اندازہ لگایا جاتا ہے کہ سامنے اچانک رکاوٹ آنے کی صورت میں ایک گاڑی کس طرح سے کام کرے گی۔ اور اس ویڈیو سے بظاہر یہی لگتا ہے کہ ہائی لکس ریو اس ٹیسٹ میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ تاہم ٹویوٹا نے اپنے پہلے وہیکل سٹیبلٹی کنٹرول میں چند تبدیلیاں کیں اور پھر یہ موز ٹیسٹ دوبارہ سے کیا گیا، نیچے اس دوسرے موز ٹیسٹ کی ویڈیو دی گئی ہے۔

اس گاڑی نے موز ٹیسٹ پاس کرلیا مگر پاکستانی ہائی لکس ریو ابھی اس وہیکل سٹیبلٹی کنٹرول سسٹم کے انتظار میں ہی ہے۔ 4 وہیل ڈرائیو گاڑیوں کا سنٹر آف گریوٹی تھوڑا اونچا ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے تیزی سے مڑنے کی صورت میں ان کے الٹنے کا اندیشہ ہوتا ہے کیونکہ ان کی بناوٹ ہوا کو کاٹنے کی طرز پر نہیں کی گئی ہوتی۔ پس اسی وجہ سے 4 وہیل ڈرائیو گاڑیاں بہت سے حفاظتی سسٹم سے لیس ہوتی ہیں جو کہ اس کی پروڈکشن لاگت کو بہت بڑھا دیتا ہے۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ ہائی لکس ریو کے انتظار کا دورانیہ 6 سے 7 ماہ، پریمیم 5 سے 6 لاکھ روپے اور فیکٹری پرائس 4299000 روپے ہونے کے باوجود اس میں وہیکل سٹیبلیٹی کنٹرول کا نہ ہونا انتہائی مایوس کن ہے۔ اور اس سے ہمیں یہ سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے کہ پاکستانی آٹو انڈسٹری اپنے ہمسایہ ممالک سمیت پوری دنیا سے کتنا پیچھے ہے۔ یہ روایت صرف ہائی لکس ریو کی نہیں ہے، آپ گاڑیوں کی ایک پوری فہرست تیار کرسکتے ہیں جو عالمی طور پر تو حفاظتی فیچرز سے لیس ہوں گی مگر ان کے پاکستانی وریژن میں ایئر بیگ تک موجود نہیں ہوں گے۔ اس آرٹیکل کا مقصد کسی کی تضحیک کرنا نہیں ہے بلکہ یہ بتانا ہے کہ پاکستانیوں کو اتنا پیسہ خرچ کرنے کے بعد بھی گاڑی کے نام پر کیا چیز دی جاتی ہے۔ ایک مقامی آٹو موٹوو سٹینڈرڈ اتھارٹی کے قیام کی اس وقت پہلے سے بہت زیادہ ضرورت ہے جو پاکستان میں گاڑیوں کے ڈیزائن، مضبوطی اور مسافروں کی حفاظت کو یقینی بنائے۔ آخر میں آپ سب کے لیے میں ایک انتہائی اہم سوال چھوڑ کر جارہا ہوں کہ اگر عالمی ہائی لکس ریو ویرینٹ وہیکل سٹیبلٹی کنٹرول ہونے کے باوجود پہلی بار میں موز ٹیسٹ پاس نہیں کر پایا تو کیا امید ہے کہ پاکستانی ویرینٹ وہیکل سٹیبلٹی کنٹرول کے بغیر وہ ٹیسٹ پاس کر لے گا؟  

Exit mobile version