پاکستانی آٹو مو بایل انڈسٹری: فیس لفٹ اور جِدت کے حوالے سے ناکام؟
ٹیکنالوجی، جِدت اور فیس لِفٹ کے اعتبار سے جو بین الاقوامی میعارپایا جاتا ہے وہ کبھی بھی پاکستانی آٹو مو بایل انڈسٹری کی اولین ترجیح نہیں رہا۔ہماری آٹو موبایل انڈسٹری تاحال بین الاقوامی تبدیلیوں کو ملک میں لانے کی جدوجہد میں لگی ہو ئی ہے،ہماری تحقیقات اور نئی گاڑیوں کا آنا ایک طرف ہے، مگرچاہے وہ ٹویوٹا ہو سوزوکی ہو یا پھر ہنڈا ان سب بڑے برینڈز کی کوئی بھی فیس لفٹ اس لائن میں نہیں آتی۔ ہمارے پاس جو ٹیکنالوجی ٹرانسفر کا لاجک ہے وہ انہیں مینو فیکچررز کا دیا ہوا ہی ہے،پھر بھی سچ یہی ہے کہ ہماری انڈسٹری کی مارکیٹ صحیح معنوں مارکیٹ کہے جانے کی مستحق نہیں۔
کسی بھی گاڑی کے ماڈل میں ہلکی پھلکی تبدیلی یا جِدت والے مِڈ جنریشن کے نئے ماڈلز متعارف تو کروائے جاتے ہیں لیکن دنیا میں موجود جدید ترین یا موجودہ ماڈلز پاکستان میں لائے نہیں جاتے،ایک آٹو موٹِو فیس لفٹ جو کہ پرانی جنریشن کی نسبت چھوٹی موٹی نئی تبدیلیاں رکھتی ہو،یعنی کہ اسکے انٹیریئر،ایکسٹیریئرمیں کچھ ردوبدل کیا گیا یا کسی فنکشن کو مارکیٹ میں موجود کسی نئی دستیاب آپشن سے بدل دیا گیا ہو۔اس عمل کو ری سٹائل یا مِڈ سائیکل ری فریش کہا جاتا ہے۔
عام طور پر،نئی گاڑیاں چھ سالہ پلاننگ کے ساتھ بنائی جاتی ہیں۔ایک ماڈل کوبنا کسی بعد از تبدیلی کے تقریباً تین سال کے لئے مارکیٹ میں متعارف کروایا جاتا ہے،اس کے بعد اس گاڑی میں کچھ بڑی تبدیلیاں کر کے اسے اگلے تین سالوں کے لئے مارکیٹ میں پیش کر دیا جاتا ہے۔اس مِڈ سائیکل کے عمل میں سب سے اہم چیز فیس لفٹ ہے۔آٹو مینو فیکچررز یہ چاہتے ہیں کہ ان کی گاڑی جدید اور نئی لگے،مگر وہ اس ری فریش کے عمل میں

زیادہ پیسے بھی نہیں خرچ کرنا چاہتے۔جیسا کہ ری ڈیزائن کے عمل میں بلا شبہ ایک اچھی رقم درکار ہوتی ہے،مگر فیس لفٹ کے حوالے سے کم سے کم خرچ کو ترجیح دی جاتی ہے۔
اسی وجہ سے فیس لفٹ آپشن پر توجہ دی جاتی ہے۔اور اس بات کو اولین ترجیح دی جاتی ہے کہ رِی انجینئرنگ کے اخراجات کے بغیر سٹائلنگ سے ہی گاڑی کو نئی شکل دی جائے۔
٭ فیس لفٹ،نیا پن اور نئے ڈیزائن۔
گاڑیوں کی دنیا میں،فیس لفٹ،ری ڈیزائن اور ری فریش کا مطلب ہے کہ ہر سال کچھ نیا دینے پر غور کرنا۔بد قسمتی سے پاکستان میں،ہماری کار انڈسٹری میں ان میں سے کچھ بھی موجودنہیں اورنہ وہ اتنی مظبوط ہے کہ کسی بھی دستیاب بین الاقوامی خصوصیت یا سپیک کوساتھ لیکر آگے جائے۔ان کے نزدیک ری فریش کا ایک ہی مطلب ہے ’فیس لفٹ‘۔جو بھی ہے،مگر ہمارے بڑے برینڈز جیسا کہ ٹویوٹا،ہنڈااور سوزوکی کو مل بیٹھ کراس پہلو پرغوروفکر کی ضرورت ہے کس طرح انٹرنیشنل مارکیٹ میں دستیاب چیزوں کی بدولت مزیدآگے بڑھا جا ئے۔ہم فیس لفٹ کے بجائے ایک نیا اپ ڈیٹ ورژن کیوں نہیں حاصل کر سکتے؟آٹھ لاکھ تک پریمیم ادا کرنے کے باوجود،فیس لفٹ کی وہ ٹیکنالوجی اور جدت کہاں ہے جس کے لئے ہم رقم ادا کر رہے ہیں؟
٭ پاک سوزوکی بمقابلہ انٹرنیشنل مارکیٹ۔
پوری دنیا فورتھ جنریشن سوِفٹ کے مزے لے رہی ہے،لیکن پاک سوزوکی ابھی تک پاکستان میں تھرڈ جنریشن متعارف کروا رہی ہے،یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ موجودہ سوِفٹ دراصل سیکنڈ جنریشن کی سوِفٹ ہے جو کہ دنیا بھر میں 2004کو متعارف کروائی گئی تھی اور اس کو 2010میں تھرڈ جنریشن سوِفٹ سے تبدیل بھی کیا جا چکا ہے۔
موجودہ دور میں پاک سوزوکی کوملک بھر کی سب سے بڑی کار اسمبلر کے طور پر جانا جاتا ہے۔وہ گاڑیاں جو کہ پاک سوزوکی کی جانب سے مینو فیکچر کی جاتی ہے ان میں شامل ہیں:
مہران۔
بولان۔
راوی۔
کلٹس۔
سوِفٹ۔
یہ تمام کے تمام پرانے ماڈلز ہیں جو کہ سوزوکی جاپان سے حاصل کیئے گئے ہیں۔ان میں سے کوئی بھی جدید آٹو موٹِو سیکیورٹی کے میعار پر پورا نہیں اترتایہاں تک کہ ان میں سے کوئی بھی آج تک ایئر بیگز کی سہولت نہیں رکھتا۔سب سے زیادہ مشہور اور فروخت ہونے والا ماڈل سوزوکی مہران ہے۔مہران کو 1988میں متعارف کروایا گیا تھا اور تب سے یہ ہر سال ہلکی پھلکی تبدیلی کے ساتھ آتی جا رہی ہے۔اور تاحال یہ ایئرکنڈشننگ کے لئے ایڈجسنٹ ایگزاسٹس یا پھر ریئر ونڈِو ڈی فوگر تک بھی نہیں دے سکی۔پاک سوزوکی کے لئے فیس لفٹ کا آئیڈیاآخر کب اپنے انجام کو پہنچے گا؟
٭ ہنڈا کابین الاقوامی طور پر موازنہ۔
چلیں اب ہنڈا کو بھی اس موازنے کا حصہ بناتے ہیں،اس کے لئے ہمیں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ ہم ہنڈا سِٹی کی ہی مثال لے لیتے ہیں۔ہمیں ایموبیلائزر کی سہولت دہائیوں بعد میسر آئی جبکہ دنیا بھر میں یہ کئی سالوں سے دی جا رہی ہے۔سِٹی کی سکستھ جنریشن کو 2014میں متعارف کروایا گیا جو کہ آج 2017میں بھی موجود ہے۔اور اس بات کی امید کی جا رہی ہے کہ ہو سکتا ہے 2018کوپاکستان میں سِٹی کی نئی جنریشن متعارف کروائی جائے۔
انویسٹرز پریمیم میں مصروف ہیں،اور صارفین اس قیمت میں جس چیز کے حقدار ہیں ابھی وہ اس سے کافی دور نظر آتے ہیں۔یہاں تک کہ حالیہ ایئر بیگز کے اضافے کو بھی ہنڈا پاکستان کی جانب سے ایک اپ ڈیٹ کے زمرے میں لایا جا رہا ہے۔
٭ پاکستان ہنڈا مقابلہ انڈین ہنڈا۔
ہمارے ہمسائے ہمارے مقابلے میں سِٹی کی بہت وسیع رینج کامیابی سے متعارف کروا چکے ہیں۔انڈین ہنڈا تقریباً سات قسم کے پیٹرول اور ڈیزل ماڈلز دے رہی ہے۔چاہے فائیو سپیڈ کی بات ہو یا سِکس سپیڈ کی مینویل کی یا سی وی ٹی آٹو میٹک کی وہ یہ سب رکھتے ہیں۔جبکہ پاکستان میں آپ ہنڈا سِٹی کے دو ماڈلز ایک اعشاریہ تین اور ایک اعشاریہ پانچ لیٹر ہی رکھتے ہیں جو کہ صرف فائیو سپیڈ آٹو یا مینویل آپشن میں ہی دستیاب ہیں۔یہاں آٹو میٹک کو پراسمیٹک کا نام دیا گیا ہے حالانکہ یہ محض عام آٹو میٹک ٹرانسمیشن ہی ہے جس میں صرف تھوڑی سی تبدیلی کی گئی ہے۔یہاں تک کہ جاپان کی ہنڈا سِٹی جسے گریس کا نام دیا گیا ہے میں بھی ڈی سی ڈی ٹرانسمیشن دی گئی ہے،اور ہمیں یقین ہے کہ مکامی طور پر ایسا کچھ متعارف نہیں ہونے والا۔بین الاقوامی مارکیٹ اب انٹیلجنٹ ڈیول کلچ ڈرائیو ٹرانسمیشن میں قدم رکھ چکی ہے،مگر یہاں کو ن ایک حقیقی فیس لفٹ یا ری ڈیزائن کی فکر کرے گا؟
٭ پاکستان میں ہنڈا کی محض برائے نام اپ ڈیٹ۔
جب کمپنی نے ہنڈا2017کی اشتہاری مہم شروع کی توبہت زیادہ افواہیں پھیلی ہو ئی تھیں۔مثلاً،”اموبیلائزر واز اے ہائی کال،بٹ گیِس واٹ؟“جس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کو پہلے سے موجود سہولیات کے بجائے اضافی سہو لیات کے لئے مزید اضافی رقم ادا کرنا ہو گی۔کمپنی آپ سے پہلے سے کہیں زیادہ رقم وصول کر رہی ہے اور وہ بھی کسی ہائی فائی جی پی ایس سسٹم کے لئے نہیں بلکہ ایک عام سی اپ ڈیٹِڈفرنٹ گرِل کے لئے۔ہاں یاد آیا، یہ مت بھولیں کہ آپ ہنڈا 2017میں اپ ڈیٹ کے طور پر نیا کار سِیٹ فیبرک حاصل کر رہے ہیں۔
کمپنی نے اس کی اشتہاری مہم میں کوئی کمی نہیں چھوڑی،مگر آپ لاکھوں روپے محض ففتھ جنریشن سیریز کے لئے ہی ادا کر رہے ہیں۔کمپنی فیس لِفٹ کے نام پر ہمیں انہیں پرانے ای سی ڈائلز اوربلیو ایکسنٹ والے اینا لاگ سپیڈومیٹر سے ہی بہلا رہی ہے۔ہنڈا، اب جاگنے کا وقت ہے کیونکہ یہ 1990کا دور نہیں بلکہ2017ہے،اور یہ مت بھولیں کے مستقبل کی بکنگز بھی رکاوٹ کا شکار ہیں کیونکہ ہنڈا کو معلوم نہیں کہ وہ کب ایک حقیقی فیس لفٹ متعارف کروانے کے قابل ہو گی۔
٭ ہنڈا سِٹی پاکستانی ماڈل بمقابلہ بین الاقوامی فیس لفٹ۔
دنیا انٹرنیشنل سِٹی ایس،وی،زی ایکس حاصل کر چکی ہے اور پاکستان میں ابھی تک مقامی سِٹی کا بیس ماڈل ایک اعشاریہ تین اور ایک اعشاریہ پانچ لیٹر ایسپائر استعمال ہو رہے ہیں۔انٹر نیشنل ماڈلز اپنی جدید سپورٹی لک کی بدولت ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔اور دوسری جانب،پاکستان میں نئے ماڈلز بھی تقریباًوہی کچھ رکھتے ہیں جو کہ ہم پرانے ماڈلز میں دیکھ چکے ہیں۔ایک دوسری خبر یہ ہے کہ جلد ہی ہنڈا سِٹی 2017کی نئی فیس لفٹ بین الاقوامی طور پر متعارف کروائے جانے کا امکان ہے،جبکہ پاکستان میں ففتھ جنریشن کی فروخت جاری و ساری ہے۔یہ خاص ماڈل دنیا بھر میں اب کم قیمت میں ملتا ہے،جبکہ پاکستان میں اسی ہی ماڈل کی بلند قیمت دیکھنے میں ملتی ہے۔ہم ترقی کی جانب گامزن ہونے کے لئے پر امید ہیں،مگر ہنڈا پاکستان ایک ایسی اپ گریڈ سِٹی جو کہ انٹرنیشنل ماڈلز کے مدِ مقابل ہوکے بارے میں سوچ بھی نہیں رہی۔
ان میں ہائبرڈ آپشنز اور سکستھ جنریشن سٹی شامل نہیں ہے۔
اس حقیقت کے باوجود کہ دنیا بھر کی مارکیٹ میں ہنڈا سِٹی سکستھ جنریشن کے مختلف ماڈلز متعارف ہو رہے ہیں۔اور ہم ہنڈا اٹلس ابھی تک سالوں پرانی ففتھ جنریشن کو ہی ہلکی پھلکی تبدیلیوں کے ساتھ چلاتے جا رہے ہیں۔ہمیں یقین ہے کہ،اٹلس ہنڈا ہائبرڈ آپشنز کو پاکستانی سڑکوں پر لانے کے بارے میں بھی غور نہیں کر رہی،چلیں ہنڈا سِٹی سکستھ جنریشن کو ایک طرف کر کے اگر ہنڈاگریس کی بات کریں جو کہ ایک جاپانی ہائبرڈ ہے۔کیا ہم اس بات کی امید رکھ سکتے ہیں کہ ہنڈا مستقبل قریب میں اس گاڑی کو پاکستان میں متعارف کروائے؟۔
ہنڈا سٹِی ہائبرڈ ملائیشین مارکیٹ میں انانوے ہزار دو سو آر ایم کی شروعاتی قیمت کے ساتھ فروخت ہو رہی ہے جو کہ پاکستانی تقریباً ساڑھے اکیس لاکھ روپے بنتے ہیں۔ابھی تک جاپان کے بعد ملائیشیاء اکلوتی مارکیٹ ہے جو کہ با قاعدہ طور پر سِٹی ہائبرڈ کو متعارف کروا چکی ہے۔افسوس،پاکستانی مارکیٹ کو یہ یقین تک نہیں کہ آیا وہ اس گاڑی کو ملک میں لا سکتی ہے۔
سکستھ جنریشن سِٹی کی فیس لِفٹ صحیح معنوں میں ”فیس لفٹ“ہے جو کہ متعارف کروائے جانے کے لئے تیار ہے۔ یہ پرانے ماڈل سے بہت بہتر ہے۔یہ نئے ایل ای ڈی لیمپس،اوڈیشیئس ایل ای ڈی ڈی آر ایلز،ری سٹرکچرڈ کروم گرِل،ایک نیا نکور بمپر ڈیزائن جو کی تھری پارٹ آریفائس اور فوگ لیمپ رکھتا ہے کے ساتھ آتی ہے۔سکستھ جنریشن نئی سِٹی کی فیس لفٹ نئے سولہ انچ کے الائے رِمز اور ایک نیا تخلیق کردہ ریئر بمپر بھی رکھتی ہے۔اس کے علاوہ تمام انٹرنیشنل ماڈلز نیا سات انچ کا ٹچ سکرین سسٹم بشمول نیویگیشن،براؤزراور فون لنکیج،سن روف اور چھ ایئر بیگزبھی رکھتے ہیں۔ان تمام معلومات کے اعتبار سے،ہماری پرانی ففتھ جنریشن ہنڈا سِٹی کیاکسی طرح مقابلے میں آتی ہے؟۔
٭ ٹویوٹا پاکستان بمقابلہ انٹرنیشنل مارکیٹ ۔
دوبارہ،وہی بیش قیمت سوال جنم لیتا ہے کہ انویسٹرز اور مینو فیکچررز آخر کب قوم کو ایسی گاڑیاں فراہم کریں گے جو کہ پیسوں کے صحیح استعمال کے زمرے میں آتی ہیں؟ ٹویوٹا کا شمار پاکستان کی فینسی ترین گاڑیوں میں ہوتا ہے،مگر افسوس،یہ بھی اپنے انٹر نیشنل ماڈلز والی خصوصیات کو لانے میں ناکام رہی۔آئی ایم سی نے رواں سال اگست میں الیونتھ جنریشن ٹویوٹا کرولا متعارف کروائی،جبکہ یہی جنریشن دنیا بھر میں 2013کو متعارف کروائی جا چکی ہے۔
پاکستان کو صرف جون2014میں الیونتھ جنریشن کرولا الٹِس ایک اعشاریہ آٹھ لیٹر متعارف کروانے کا شرف حاصل ہے،مگرکیا اسے ہم کامیابی کہ سکتے ہیں؟ہمارے مینوفیکچررز نئے ناموں کی مشہوری کر کے اور کم کوالٹی اور خصوصیات دے کر لوگوں کے ذہنوں کے ساتھ کھیلتے ہیں۔فیس لفٹ اور ساؤنڈپروف کے مقابلے میں انٹر نیشنل ماڈلز ان سے کہیں آگے ہیں۔مگر پاکستان میں،ہم ابھی تک ایل سی ڈی اور ایل ای ڈی کی بحث میں الجھے ہو ئے ہیں۔کچھ بھی نہیں بد لا اور آئی ایم سی ڈیلرز کو کوئی فرق بھی نہیں پڑتا۔انٹیریئر محض چھوٹی موٹی تبدیلیوں کے علاوہ اسی پرانے ڈسپلے کے ساتھ دستیاب ہے۔ آپ کو آئی ایم سی کی جانب سے پیش کی جانے والی نئی فیس لِفٹ میں کوئی سیفٹی سینس بھی نظرنہیں آتی،جیسے کہ دنیا بھر کے ماڈلز میں نئے پیک دستیاب ہیں۔
٭ حل۔
میں یہ کہوں گا،ہمیں اس بات کا یقین بھی نہیں کہ ہماری آٹو موبائل پالیسی ان بڑے برینڈز کو اس طرف لانے کی کوشش بھی کر رہی ہو کہ وہ عوام کے لئے کچھ ایسا لائیں جو کہ اصل معنوں میں پیسوں کے صحیح استعمال کے زمرے میں آئے۔تھوڑی بہت اپ ڈیٹس کودر اصل فیس لفٹ کا نام نہیں دیا جا سکتا جو کہ آج کل ہو رہا ہے۔ بنا کسی نئی چیز کے قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں کچھ پتا نہیں ہے،بلکہ ہمارے مینویکچررز کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ عوام سب جانتی ہے کہ وہ کتنی رقم ادا کر رہی ہے اور اس کے بدلے میں انہیں کیا مِل رہا ہے۔نئی فیس لفٹس کوملک میں لانے کے لئے ہمیں کچھ بڑے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستانی آٹو مو بائل انڈسٹری کو اپنی جڑیں مظبوط کرنے کے لئے بین الاقوامی میعار کے مطابق ری فریش فیس لِفٹ اور ری ڈیزائن کے فارمولے پر عمل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔