ایف اے او نے پنجاب میں سموگ میپنگ کا آغاز کر دیا

0 197

آلودگی ہمیشہ سے پاکستان کا ایک مسئلہ رہی ہے خواہ وہ فضائی آلودگی ہو یا شور کی آلودگی۔ دنیا کے دوسرے خطوں میں نیشنل انوائرمنٹل کوالٹی سٹینڈرڈ پر من و عن عمل کر کے اس سے نمٹا جاتا ہے۔ تاہم پاکستان میں چیزیں زرا مختلف ہیں۔ ہمارے ہاں بھی اسی طرح کے سٹینڈرڈ بنائے گئے ہیں مگر ان پر عمل درآمد ایک خواہش ہے۔

آپ میں سے کچھ لوگوں کو شاید یاد ہو گا کہ پچھلے سال نومبر میں پورے ایک ہفتہ کے لیے سموگ نے لاہور اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اس سے نہ صرف آنکھوں کے مسائل بلکہ سانس اور جلد کے مسائل بھی پیدا ہوئے۔ سموگ ہمارے ملک کے بہت سے شہروں کا مسئلہ ہے۔ تاہم سب سے بدترین صورتحال پچھلے سال لاہور میں دیکھنے میں آئی۔ اس کی وجہ سے 20 بڑے حادثات ہوئے اور کئی فلائیٹس معطل کر دی گئیں۔

سموگ کیا ہے؟ آسان الفاظ میں سموگ ایک قسم کی فضائی آلودگی ہے۔ یہ دھند اور دھوئیں کا گرے کلر کا ایک آمیزہ ہے۔ سموگ کی چند بڑی وجوہات درج زیل ہیں:

  • انڈسٹریل دھواں
  • گاڑیوں کا دھواں
  • کوڑے کا جلانا
  • فصلوں کی باقیات کا جلانا
  • درختوں کا کٹاؤ

سموگ بزات خود خطرناک گیسوں کا مجموعہ ہے۔ یہ سر درد اور سانس کی بیماریاں جیسا کہ استھما کا باعث بنتا ہے۔ پچھلے سال جب سموگ نے لاہور کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا تب پنجاب کے وزیراعلی شہباز شریف نے ایک کمیٹی تشکیل دی جس کا مقصد اس ساری صورتحال کا جائزہ لینا تھا۔

یہ نئی تشکیل کردہ کمیٹی چیف منسٹر کے ایڈوائزر ہیلتھ، وزیر ماحولیات، چیف سیکرٹری پنجاب اور 16 دیگر سرکاری افسروں پر مشتمل تھی۔ پنجاب کے مختلف حصوں خصوصاً لاہور میں سموگ کی بڑھتی ہوئی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن آف پاکستان (ایف اے او) نے پنجاب ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ کی درخواست پر  ایک تکنیکی مدد فراہم کرنے کے لیے ایک پروجیکٹ کا آغاز کیا۔

اس پروجیکٹ کا مقصد سموگ اور زراعت میں استعمال ہونے غیر محفوظ طریقوں میں تعلق کا پتہ لگانا تھا، جیسا کہ پنجاب کے مختلف علاقوں میں کسان فصلوں کی باقیات کو جلا دیتے ہیں۔ فصلوں کی باقیات کو جلانا سموگ پیدا ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے۔اس قسم کی آلودگی میں نائٹروجن آکسائیڈ، سلفر آکسائیڈ، اوزون، دھواں اور دیگر مادے شامل ہوتے ہیں۔

اس پروجیکٹ کا نام ’ٹی سی پی آر سموگ‘ رکھا گیا ہے۔ اس کا مقصد نئے قواعد و ضوابط بنانا ہے جن کے زریعے اس صورتحال پر کنٹرول کیا جاسکے اور مستقبل میں اس آلودگی سے بچا جا سکے۔ ایف اے او کی ابتدائی تحقیق کے مطابق، فصلوں کو جلانے سے ہوائی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے جو بعد میں سموگ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہ سموگ پھر لوگوں کے لیے مشکلات پیدا کرتا ہے اور فصلوں اور پودوں کو بری طرح سے متاثر کرتا ہے۔

جیوگرافک انفارمیشن سسٹم کے زریعے مختلف جگہوں کا جائزہ لیا جارہا ہے خصوصی طور پر ان علاقوں کا جہاں فصلوں کا جلانا عام ہے۔ یہ ٹیکنالوجی سموگ کی بڑی وجہ جاننے میں بہت مدد دے گی جس سے مستقبل میں سموگ پر قابو پایا جاسکے گا۔

اس تحقیق کے آغاز کے موقع پر ایف اے او کے پاکستان کے نمائندے مینا ڈولاچی نے کہا ’ ایک ایکشن پلان بنایا جائے گا جس کے زریعے غیر محفوط زراعت کے طریقوں جیسا کہ فصلوں کی باقیات کو جلانے وغیرہ کو کم کیا جائے گا تاکہ زراعت سے متعلق کوئی بھی چیز سموگ کا باعث نہ بنے‘

آر سموگ پروجیکٹ سیٹلائٹ سے معلومات اکٹھی کرتا ہے۔ سیٹلائٹ کا ڈیٹا فضائی آلودگی کا جائزہ لینے اور اس کے حل کے لیے فیصلہ لینے میں بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس جدید ٹیکنالوجی کے زریعے ماحول کا ڈیٹا اکٹھا کرنے، اس کا جائزہ لینے اور اس کے مطابق فیصلے کرنے میں بہت مدد ملتی ہے۔

این اے آر سی کے واٹر ریسورس ڈویژن میں آلٹرنیٹ انرجی اینڈ کلائمیٹ چینج کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد منیر احمد نے کہا ’ فصلوں کی باقیات نہ صرف سموگ پیدا کرتی ہے بلکہ زمین کی زرخیزی بھی متاثر کرتی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ کسانوں کو جدید طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے جو کہ قدرے سستا بھی ہے۔‘ ایف اے او کا پروجیکٹ نہ صرف فصلوں کی باقیات کے جلانے کو مدنظر رکھے گا بلکہ دوسرے محرکات جن میں وہیکلز کا دھواں، درختوں کا کٹاؤ، انڈسٹری کا دھواں اور سڑکوں پر بڑھتی ہوئی ٹریفک جیسے معاملات پر بھی غور کرے گا۔

پنجاب حکومت کا یہ اقدام بہت اچھا ہے اور یہ آنے والے موسم میں سموگ کو بالکل ختم کر دے گا۔ اس مسئلہ کی جڑ تک پہنچنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ حکومت اس مسئلہ کے حل کے لیے کتنی سنجیدہ ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ جلد ہی ہمیں بہتری نظر آئے گی۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.