پاکستانی آٹو انڈسٹری میں چائنیز گاڑیوں کا مستقبل۔
پاکستان اور چائنہ کی دوستی کوئی نئی خبر نہیں ہے،دونوں ممالک کے مابین بہت سے پراجیکٹس اور ڈویلپمنٹ کے معاہدے ہو چکے ہیں اور کچھ ابھی زیرِ غور ہیں۔ہمارا آج کا بلاگ بھی کچھ اسی حوالے سے ہے کہ پاکستانی آٹو مارکیٹ میں چائنیز گاڑیوں کا مستقبل کیسا ہے۔
٭پاکستان میں بڑی آٹو کمپنیاں
قابلِ غور بات یہ ہے کہ کراچی سٹاک ایکسچینج کے آٹو اینڈ الائید سیگمنٹ میں بارہ آٹو کمپنیوں کے نام رجسٹرڈ ہیں اور پاکستان میں بنیادی طور پرچار آٹو پلیئرز سر گرم ہیں یہ تما م جاپانی ہیں جن کے نام ہیں:
٭ پاک سوزوکی موٹرز کمپنی لمیٹد۔
٭ انڈس موٹر کمپنی لمیٹد۔
٭ ہنڈا اٹلس کارز لمیٹد۔
٭ گندھارا نِسان لمیٹڈ۔
ان چاروں میں سے مارکیٹ میں پاک سوزوکی کا نام سرِ فہرست ہے۔ جبکہ،بسوں اور ایچ جی ویز کی مارکیٹ نیشنل موٹرز،گندھارا نِسان ڈیزل اور ہینو پاک موٹرز پر مشتمل ہے۔ٹریکٹرز بنانے والی کمپنیوں میں ال غازی ٹریکٹرز،ماسٹر موٹرز اور ملت ٹرکیٹرز شامل ہیں۔ان تمام اہم ناموں کا ہم نیچے تفصیلاً جائزہ لیں گے۔
٭ معروف کمپنیاں۔
جیسا کہ سوزکی ہنڈا اور سوزوکی جیسی آٹو موبائلز عوام کے دلوں پر راج کر رہی ہیں جس کا انحصار کئی چیزوں پر ہے۔ جبکہ گندھارا نِسان لمیٹڈ بھی کام کر رہی ہے مگر لوگوں کی توجہ کا مرکز تین بڑے نام سوزوکی،ہنڈا اور ٹویوٹا ہی ہیں۔ان تین بڑے ناموں کی کامیابی کی وجوہات کچھ یوں ہیں:
٭ کمپنی کی مارکیٹ ویلیو۔
٭ عوامی رابطہ۔
٭ پیسوں کاصحیح استعمال۔
٭ مختلف خصوصیات اور فیچرز رکھتے ماڈلز۔
٭ بعد از فروخت سہو لیات کی دستیابی۔
٭ ری سیل ویلیو۔
٭ کوالٹی اور ڈیزائن لینگوئج۔
اس وقت ہمارا نئے ماڈلز،فیس لفٹس اور برینڈ ریفریشرز کی جانب شوق اور رجحان مزید بڑھ چکا ہے۔ اگر چائنہ ان برینڈز کے مد مقابل آنا چاہتا ہے تو اسے لوگوں کو متوجہ کرنے کے لئے کچھ نیا لانا ہو گا تاکہ لوگ ان کی گاڑیوں کو پسند کریں۔اور اس سب کی شروعات کسی بھی چائنیز گاڑی کی بہترین کوالٹی، مناسب قیمت اور نمایاں خصوصیات سے ہو سکتی ہے۔
٭ جاپانی گاڑیوں کا دور۔
جیسا کہ نئی آٹو پالیسی کافی دلچسپ ہے اور یہ چائنیزاور جاپانی گاڑیاں کو کئی مواقع بھی فراہم کررہی ہے۔جاپانی گاڑیوں میں سے زیادہ تر استعمال شد ہ گا ڑیاں ہیں جو کہ پا کستان میں امپورٹ ہو رہی ہیں۔ان استعمال شدہ گاڑیوں کی امپورٹیشن پانچ سال کے عرصے سے تجاوز کر چکی ہے۔ 2016میں تقریباً تینتالیس ہزار استعمال شدہ گاڑیاں پاکستان میں امپورٹ کی گئیں۔ رپورٹس مطابق یہ تعداد 2015 میں اٹھائیس ہزار تھی،جو کہ ایک بڑا اضافہ ہے۔یہ امپورٹس ان بڑے ڈیلرز کی جانب سے کی گئیں جو کہ جاپان میں بھی کام کرتے ہیں۔یہ سب برانچز گاڑی خریدتی ہیں اسے امپورٹ کرتی ہیں اور پھر لوکلی انہیں فروخت کرتی ہیں۔پاکستان کی امپورٹ پالیسی کی بات کی جائے تو گاڑی پانچ سال سے زائد (2012)تک ہو نی چا ہئے اور کمرشل گاڑیوں کو امپورٹ کرنے کی اجازت بھی دی گئی ہے۔
سب چیزوں کہ ایک طرف کرتے ہو ئے یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جاپانی گاڑیاں ملکی ترقی میں ایک نیا قدم ہیں،جن میں کچھ مشہور گاڑیاں یہ ہیں۔
٭ ٹویوٹا وِٹز۔
٭ ڈائی ہٹسو مِرا۔
٭ ٹویوٹا پریئس۔
٭ ہنڈاویِزل۔
٭ سوزوکی آلٹو چھ سو ساٹھ سی سی۔
٭ سوزوکی ویگن آر۔
٭ کرولا فیلڈر۔
٭ ٹویوٹا کرولا پروباکس۔
٭ ٹویوٹا ایکواء۔
٭ فاء اینڈ الحاج۔
آج کل، پاکستان میں کثرت سے نظر آنے والا چائنیز برینڈ الحاج فاء ہے۔یہ ایک چائنیز گروپ ہے جو کہ پاکستان میں الحاج فاء کے نام سے کام کر رہا ہے۔فاء چائنہ کے بڑے ناموں میں سے ایک ہے جو کہ کچھ عرصہ قبل ہی پاکستان میں آیا ہے۔فاء پاکستان نیاپنی فرسٹ جنریشن ہیچ بیک وِی ٹو کے نام سے 2013میں متعارف کروائی ۔
موجودہ وِی ٹو کی قیمت ایک لاکھ انہتر ہزار پاکستانی روپے ہے جو کہ ہماری نظر میں ایک مناسب قیمت ہے۔اس قیمت میں چائنیز برینڈ آپ کوالحاج گروپ کے بینر تلے تین سالہ وارنٹی اور تین فری سروسزرکھنے والی زیرو میٹر گاڑی فراوہم کرتا ہے۔
بلاشبہ،یہ صارفین کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لئے ایک بہت اچھی ٹیکنیک ہے۔مگر ایک بار پھر،اگر یہ پیسوں کے صحیح استعمال کے زمرے میں نہیں آتی تو یہ وہ گاڑی نہیں جس کی آپ کو تلاش ہے۔اور اگر چائنیز گاڑیاں اپنی جڑ پکڑنا چاہتی ہیں تو انہیں عملاً کام کرنے کی ضرورت ہے نا کہ محض باتوں سے۔
٭ زِیوٹ ہولڈنگ گروپس کا تعارف۔
یہ چائنہ کا ایک دوسرا بڑا نام ہے،جو کہ پاکستان میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے مصروفِ عمل ہے۔یہ کمپنی حبیب رفیق گروپ کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عظم رکھتی ہے۔اس گروپ کی گاڑیوں کا آنا ایک بہت بڑا عمل ہو گا،مگر ہمیں ان کے سکسیس ریٹس پر تھوڑا سا شبہ ہے۔یہا ں اور وہاں چیزیں کافی تبدیل ہو رہی ہیں لیکن اگر یہ تبدیلی محض برائے نام ہی ہو تو آپ کو کئی بار سوچنا پڑتا ہے۔زِیوٹ پاکستان میں اپنے بے شمار ماڈلز ڈسپلے کے لئے پیش کرنا چاہتی ہے مگر ایک بار پھر،مارکیٹ ویلیو،فروخت اور بعد از فروخت کے سوالات جنم لیتے ہیں۔
٭ عوامی رائے اور امیدیں۔
اگر ہم ان برینڈز کی مقبولیت کے حوالے سے تحقیق کریں،تو ہمیں یہ یقین ہے کہ اہم نام جیسا کہ سوزوکی،ہنڈا اور ٹویوٹاکے چاہنے والے زیادہ ہوں گے۔ چائنیز کمپنیز کئی میدانوں میں اپنا لوہا منوا چکی ہیں جیسا کہ مشینیں،موبائل فونز،گیجٹ وغیرہ لیکن آٹو موبائل ڈویژن شائد ان کے لئے آسان نا ہو گی،اس حوالے سے کچھ نقاط درج ذیل ہیں:
٭ ویلیو ایڈِڈ لوکلائزیشن۔
٭ اِنسوینٹِوز۔
٭ قیمت۔
٭ ٹیکنالوجی۔
٭ گارنٹیِڈ سروس۔
٭ بڑے مسائل اور چیلنچز۔
ہمیں یقین ہے کہ ہمارے پڑھنے والے پاکستان میں چائنیز گاڑیاں متعارف کروائے جانے کے حوالے سے بنیادی چیزوں سے بخوبی واقف ہو ں گے۔چائنیز گاڑیاں مستقبل میں پاکستان کے اندر اپنی جگہ بنانے کے لئے جن مسائل سے دو چار ہو سکتی ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں:
٭ چا ئنیز گاڑیوں کی ٹیکنالوجی ٹرانسمیشن۔
چائنیز کارز انڈسٹری کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ دنیا بھرکے ایسوسی ایٹس کے مقابلے ٹیکنالوجی ٹرانسمیشن کی کمی ہے۔انہیں کسی نئی چیز کومتعارف کروانے کی ضرورت ہے مگر،غیر ملکی گاڑیوں کو نقل کرنے اور بین الاقوامی ایکسکلوزِو پروڈکشن رائٹس کی وجہ سے وہ اس میں بہتری نہیں لا سکتے۔ہمارے نزدیک اگر چائنیز کمپنیاں کچھ ایسا متعارف کروائیں جو کہ ہماری گاڑیوں سے بہتر ہے تو انکے کامیابی کے چانسز کافی بڑھ سکتے ہیں۔
٭ قیمت کی زیادتی۔
بڑھتی ہو ئی قیمتوں کی وجہ سے بھی چائنیز انڈسٹری پاکستان میں مسائل کا شکار ہے۔سوچ لیتے ہیں کہ وہ کورین اور جاپانی گاڑیوں سے بہتر کوالٹی دینے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر اس کے باوجود بھی ہم شک کی کیفیت میں مبتلا رہیں گے۔ لہٰذا گاڑیوں کی کوالٹی کے اعتبار سے قیمت میں اضافہ تو بالکل ہی بحث سے باہر ہے۔
٭ ٹیکنیکل سپورٹ کی کمی۔
چائنیز کمپنیوں اور ان کے غیر ملکی پارٹنرز کے لئے ایک اور بڑا مسئلہ مخصوص زبان اور ٹیکنیکل سپورٹ کی کمی ہے۔جیسا کہ انجینئرزاپنے غیر ملکی عہدیداران سے ٹھیک سے بات نہیں کر پاتے تو وہ پاکستانی مارکیٹ کو کس طرح ڈیل کریں گے؟جاپانی برینڈز ویسے بھی چھوٹی سے چھوٹی چیز پر روٹ کیس اینالائسز کرنے کے لئے مشہور ہے،جبکہ دوسری جانب،چائنیز روٹ کیس کے مسئلے پر کوئی توجہ نہیں دیتے۔یہ عمل بھی پاکستان میں کسی چائنیز گاڑی کی بڑی پروڈکشن کے لئے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔
٭ سپیئر پارٹس کی عدم دستیابی۔
نئی آنے والی چائنیز گاڑیوں کے سپیئر پارٹس کی قیمت اور دستیابی جاپانی گاڑیوں کے سپیئر پارٹس کے برار ہیں۔اس طرح،موضوں قیمت نہ ہونے کی وجہ سے چائنیز گاڑیوں کو کم اوپننگ رسپانس ملا۔اس کا شکار ناصرف گاڑیاں ہو ئیں بلکہ موٹر سائیکلزوغیرہ کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آیا۔یہ امید کی جارہی ہے کہ کچھ برینڈ جیسا کہ فاء شاید اس حوالے سے مثبت تبدیلی لائے۔روڈ پرنس کمپنی،جو کہ پاکستانی بائیکس انڈسٹری کا ایک بڑا نام ہے وہ بھی بائیکس کے حوالے سے چائنیز برینڈزونگ شین موٹرز کے ساتھ ڈیل کر رہا ہے۔وہ اپنی جگہ مزید مستحکم بنانے کے لئے مصروفِ عمل ہے اور اوپر بیان کیئے گئے تمام پہلوؤں پر نظر ثانی کر رہے ہیں۔
٭ زیرِ التواء بعد از فروخت سروس۔
پاکستان میں چائنیز کمپنیزکو لاحق مشکلات میں ایک بڑی مشکل مناسب سیلز اینڈ سروسز فراہم ناکرنا ہے۔اس سے مزیدبے اعتمادی اور دیگر کاروباری مشکلات میں اضافے کی فضا پیدا ہوتی ہے۔
٭ حل۔
ایسا لگتا ہے کہ ایک خوبصورت سفر کی شروعات کے لئے دونوں ممالک کے آگے بڑھنے کے راستے کافی کھلے ہیں۔چائنہ اگر پاکستانی انڈسٹری میں اپنی جگہ بنانا چاہتا ہے تو اسے مزید آگے بڑھنے اور پیسوں کے صحیح استعمال کے زمرے میں آنے والی گاڑیاں دینے کی ضرورت ہے۔ہمارے صارف دنیا بھر کے تمام برینڈز اور ان کی جانب سے دی جانے والی خصوصیات سے بخوبی آگاہ ہیں،اور ان کا اعتماد حاصل کرنا کافی مشکل کام ہے۔جب لوگ آپ کی قابلیت پر اعتماد کرتے ہیں توبرینڈ ’ایک برینڈ‘ بنتا ہے۔محض کم قیمت دے کرکو ئی بھی چائنیز کمپنی پاکستانی صارفین کے دل نہیں جیت سکتی۔آپ کی گاڑی کا آپ کے ہر سفر کا ساتھی ہونا ضروری ہے،اور اگر وہ بھروسہ مند نہیں ہے تو وہ خریدے جانے کی اہلیت نہیں رکھتی۔