حکومت جلد ہی الیکٹرک گاڑیوں کے لیے ایس آر او جاری کرے گی
الیکٹرک گاڑیوں اور اُن کے پرزوں کی تیاری کے لیے حکومت جلد ہی الیکٹرک وہیکل (EV) پالیسی کےحوالے سے Statutory Regulatory Order یعنی SRO جاری کرے گی۔
وزیر اعظم کے مشیر برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم کے مطابق حکومت جلد ہی الیکٹرک گاڑیوں کی صنعت کے لیے ایک SRO جاری کرے گی۔ یہ پالیسی الیکٹرک گاڑیاں بنانے والوں کے لیے پالیسی کا نفاذ ممکن بنائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ وزارت موسمیاتی تبدیلی اور وزارت صنعت الیکٹرک گاڑیاں بنانے والوں اور ان سے متعلق تاجروں کو رعایتی پیکیجز دینے کے لیے مشترکہ طور پر کام کر رہی ہیں۔
کابینہ نے حال ہی میں پاکستان کی پہلی الیکٹرک وہیکل پالیسی منظور کی تھی اور حکومت ملک میں الیکٹرک گاڑیاں متعارف کروانے کے لیے تیار ہے۔ یہ قدم ماحول پر کاربن اثرات کو کم کرنے کے لیے الیکٹرک گاڑیاں متعارف کروانے کے وزیر اعظم کے وژن کی عملی صورت ہے۔ حکومت 2030ء تک 30 فیصد گاڑیاں الیکٹرک پر منتقل کرنے کا ہدف رکھتی ہے۔
الیکٹرک وہیکل پالیسی کی تیاری میں مختلف نشیب و فراز آئے کیونکہ چند اسٹیک ہولڈرز کو ابتداء میں اس کا حصہ نہیں بنایا گیا تھا۔ وزارت صنعت و پیداوار اور وزارت موسمیاتی تبدیلی کے مابین بھی پالیسی کے حوالے سے اختلافات سامنے آئے کہ جنہیں بعد میں حل کر لیا گیا۔ اس پالیسی سے پوری صنعت میں انقلاب آ جائے گا اور یہ ملکی معیشت اور صارفین کے لیے بھی فائدہ مند ہوگی۔
مشیر کے مطابق روایتی ایندھن سے چلنے والے انجنوں کی الیکٹرک پر منتقلی سے تیل کی درآمد میں سالانہ 2 ارب ڈالرز کی بچت ہوگی۔ پھر الیکٹرک گاڑیاں متعارف کروانے سے صارفین کے ایندھن پر آنے والے اخراجات میں بھی نمایاں کمی ہوگی۔ ایندھن کی 60 فیصد کھپت تو صرف موٹر سائیکلوں سے ہی کم کی جا سکتی ہے۔ گاڑیوں کی دیکھ بھال اور مرمت پر آنے والے اخراجات میں بھی کمی آئے گی کیونکہ انجن اور اس کے دیگر پرزوں کی جگہ واحد الیکٹرک بیٹری لے لے گی۔ ان سب سے بڑھ کر یہ کہ ماحول روایتی ایندھن سے چلنے والے انجنوں سے نکلتے کاربن کے مضر اثرات سے بچ پائے گا کہ جو فضائی آلودگی کا اہم سبب ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جہاں تک ملک میں بجلی کی فراہمی کا تعلق ہے تو اِس وقت طلب 10,000 میگاواٹ روزانہ ہے جبکہ 18,000 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔
پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کی طلب سرمایہ کاری کے لیے وسیع مواقع پیدا کرے گی کہ جن سے مجموعی طور پر معیشت کو استحکام ملے گا۔ سرمایہ کاری جیسا کہ الیکٹرک چارجنگ اسٹیشنوں کی تیاری، الیکٹرک بیٹریاں اور الیکٹرک کنورژن کِٹ بنانے سے مقامی صنعت میں روزگار کے ہزاروں مواقع پیدا ہوں گے جو کہ ایک روشن مستقبل کی نوید ہیں۔ کراچی میں قائم ایک پرائیوٹ کمپنی پہلے ہی کامیابی کے ساتھ الیکٹرک کنورژن کِٹ بنا چکی ہے جو معمولی لاگت پر موجودہ گاڑیوں کو الیکٹرک میں تبدیل کرنے میں مدد دے گی۔
پھر کچھ چینی ادارے بھی الیکٹرک بیٹریاں بنانے کے لیے ملک میں پلانٹس لگانے کے خواہشمند ہیں۔ الیکٹرک گاڑیوں کی صنعت میں سرمایہ لگانے والوں کو بھی مختلف سہولتیں دی جا رہی ہیں۔ حکومت الیکٹرک گاڑیوں کی صنعت کو مستحکم کرنے کے لیے ایک ریسرچ انسٹیٹیوٹ بنانے کا ہدف بھی رکھتی ہے کہ جسے مستقبل میں ایک یونیورسٹی کا درجہ دیا جائے گا۔
ترقی یافتہ ممالک میں بڑے عالمی ادارے پہلے ہی الیکٹرک گاڑیوں کی جانب منتقل ہو چکے ہیں اور پاکستان جلد ہی ان ملکوں کی فہرست میں آ جائے گا۔ خطے میں آلودگی اور بڑھتی ہوئی عالمی حدّت کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے بھی یہ اِس وقت کی آواز ہے۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ملک میں گاڑیاں بنانے والے موجودہ ادارے الیکٹرک وہیکل پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں لیکن حکومت واضح کر چکی ہے کہ وہ منصوبے کے مطابق آگے بڑھے گی اور اس سلسلے میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائے گی۔
موجودہ آٹو کمپنیوں کو اس انقلابی قدم پر حکومت کا ساتھ دینا چاہیے، اور بدلے میں حکومت کو بھی الیکٹرک وہیکل پالیسی کے لیے منصوبے بنانے کے عمل میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ رکھنا چاہیے۔ اپنے قیمتی خیالات نیچے تبصروں میں پیش کیجیے اور اس حوالے سے مزید خبروں کے لیے پاک ویلز کے ساتھ رہیے۔