پیٹرولیم مصنوعات پر بھاری ٹیکس؛ عوام پر شدید معاشی بوجھ کے مترادف

اسے وطنِ عزیز کی بدقسمتی کہیں یا ملک کو چلانے والوں کی نا اہلی کہ دنیا جہاں کے وسائل و اسباب میسر ہونے کے باوجود پاکستان آج تک اُس مقام تک نہیں پہنچ سکا کہ جہاں ترقی پانے کے بعد حقیقت میں اسے ہونا چاہیے تھا۔ قانون اور نظام محض کاغذوں میں پایا جاتا ہے، معاملات “جس کی لاٹھی، اس کی بھینس” کی طرح چل رہے ہیں۔ بہرحال، کاروبارِ مملکت تو چلانے ہیں اور اس کے لیے کثیر سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے جو دنیا بھر میں حکومتیں زیادہ تر ٹیکس کے ذریعے پورے کرتی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں ٹیکس کا ایک یکساں نظام لاگو ہوتا جس میں دولت مند افراد پر ٹیکس کی شرح زیادہ ہوتی اور معاشرے کے نچلے طبقات پر کم دباؤ ڈالا جاتا۔ لیکن تیسری دنیا کے تمام ممالک کی طرح پاکستان میں بھی الٹی گنگا ہی بہہ رہی ہے۔ یہاں سرمایہ دار ہو یا جاگیردار، ٹیکس کے معاملے میں اُس کو یا تو کھلی چھوٹ دے دی جاتی ہے یا پھر ایسے چور دروازے چھوڑ دیے جاتے ہیں، جن سے با اثر شخص باآسانی نکل جاتا ہے۔ اس کے برعکس ‘چھوٹی مچھلی’ یعنی عام آدمی ٹیکس کے اس جال میں بری طرح پھنس جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گاڑی میں ایندھن بچانے کی صلاحیت کو نقصان پہنچانے والے 8 عوامل

شاید آپ کو یاد ہو، اگر نہیں ہے تو ہم دلا دیتے ہیں کہ آج سے 20 سال قبل یعنی 90ء کی دہائی کے وسط میں ڈیزل پٹرول کی نصف قیمت سے بھی کم میں فروخت ہوا کرتا تھا۔ اگر پٹرول کی قیمت 20 روپے فی لیٹر ہوتی تھی تو ڈیزل بمشکل 9 روپے فی لیٹر تک پہنچتا تھا۔ یہی چلن نئی صدی کے آغاز تک بھی برقرار رہا جیسا کہ 2000ء میں پٹرول کی قیمت 30 روپے فی لیٹر تھی اور ڈیزل 15 روپے فی لیٹر تھی۔ لیکن اس کے بعد آہستہ آہستہ یہ فرق کم ہوتا چلا گیا۔ ٹیکس بوجھ کی عام و غریب افراد پر بے رحمانہ منتقلی کا چلن عام ہوا، یہاں تک کہ 2006ء میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کے درمیان فرق صرف 6 روپے کا رہ گیا۔ ڈیزل 61 اور پٹرول 67۔ پھر جیسے ہی نئی صدی کی پہلی دہائی مکمل ہوئی تمام تر روایات توڑتے ہوئے ڈیزل نے پٹرول کو مات دے دی۔ پٹرول 73 پر کھڑا رہا جبکہ ڈیزل 78 روپے کو پہنچ گیا۔ گزشتہ حکومت کے “زرّیں عہد” کے اختتام پر ڈیزل 114 روپے کی بلند ترین سطح کو چھو رہا تھا۔ آخر ایسا کیوں؟ کیونکہ حکومت ٹیکس کا تمام تر بوجھ عام شخص پر منتقل کر رہی تھی اور اب بھی بالکل اسی پالیسی پر کام جاری ہے۔

گو کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں پہلے سے کافی کمی آئی ہے۔ جس کی ایک وجہ تو بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی گرتی ہوئی قیمت ہے، لیکن اس کے باوجود صرف بے رحمانہ ٹیکس کی وجہ سے اس کمی کے اثرات پاکستان میں عوام تک منتقل نہیں ہو رہے۔ حتی کہ صرف گزشتہ دور حکومت میں، یعنی 2008ء سے 2013ء کے درمیان پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 100 فیصد اضافہ ہوا۔ پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس کی صورت میں عوام کو کس بری طرح لوٹا جا رہا ہے، بلکہ الٹی چھری سے حلال کیا جا رہا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2014-15ء میں حکومتِ پاکستان نے جتنے ٹیکس وصول کیے ہیں، ان کا تقریباً 44 فیصد حصہ صرف پٹرولیم مصنوعات پر لگائے گئے ٹیکس سے حاصل کیا گیا ہے۔ حکومت نے اس مالی سال میں کل 233.2 بلین روپے صرف پٹرولیم مصنوعات پر ہی ٹیکس سے کما لیے اور یہ اعداد و شمار ذرائع یا کسی خفیہ معلومات سے سامنے نہیں آئے بلکہ خود فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے جاری کیے ہیں۔

ایف بی آر کی رپورٹ دیکھیں اور اس میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے 10 بڑے شعبہ جات کا مطالعہ کریں تو صاف اندازہ ہو جاتا ہے کہ حکومت کی ترجیحات کیا ہیں۔ ایک طرف آمدنی کا 44 فیصد، اور کل مقامی سیلز ٹیکس کا 73 فیصد، پٹرولیم اور تیل کی دیگر مصنوعات سے حاصل کیا جا رہا ہے، وہیں 10 میں سے صرف دو شعبے ایسے ہیں جن میں ٹیکس آمدنی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ایک تو قدرتی گیس اور دوسرا کھاد، کیونکہ ہمارے کرتا دھرتا خود جاگیردار ہیں اس لیے زراعت سے متعلقہ کسی بھی بڑے شعبے پر ٹیکس کو اس بے رحمی سے لاگو نہیں کیا گیا، جس طرح نچلے طبقے پر اثرات ڈالنے والی مصنوعات پر بھاری ٹیکس لگائے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: استعمال شدہ گاڑی خریدنے سے پہلے انجن کی 5 چیزیں ضرور دیکھیں

افسوس کی بات یہ ہے کہ اس پورے عرصے میں عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں تاریخ کی بدترین سطح تک گریں۔ اب تو پٹرولیم مصنوعات کوڑیوں کے بھاؤ فروخت ہو رہی ہیں لیکن یہاں اُن کی حیثیت بہت زیادہ گرنے نہیں دی گئی۔ چند ماہ قبل جب آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے قیمت میں 7 روپے فی لیٹر کی کمی کا اعلان کیا تھا تو حکومت کے لگائے ٹیکسز کی وجہ سے یہ کمی عوام تک صرف 3 روپے فی لیٹر کی صورت میں پہنچی۔ ایسا کیوں؟ کیونکہ پٹرول کے ہر لیٹر پر آپ، میں اور سب عوام 23 روپے اور ڈیزل پر پورے 33 روپے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اس وقت عوام کو سیلز ٹیکس کی صورت میں ڈیزل پر 50 فیصد، پٹرول پر 26 فیصد اور مٹی کے تیل پر 30 فیصد کی اضافی ادائیگی کرنا پڑتی ہے اور یہ تاریخ میں ٹیکس کی بلند ترین شرح ہے۔ حکومت نے “حاتم طائی کی قبر پر لات مارنا” کے محاورے کو ایک ڈیڑھ ماہ قبل حقیقت کا روپ دیا اور ڈیزل پر 5 فیصد سیلز ٹیکس کو کم کرکے 47.5 فیصد کردیا، یعنی پورے ڈھائی فیصد! اب تو خوش ہیں ناں آپ؟

Exit mobile version