جانئیے کہ کس طرح نئی ہنڈا سٹی پاکستانی آٹو انڈسٹری کا آئینہ ہے۔

اگر کم سے کم کہا جائے تونئی ہنڈا سٹی کی کاسمیٹک فیس لفٹ مایوس کن ہے مگر پھر بھی،یہ صارفین میں مقبولیت کے خاصے مزے لے رہی ہے۔
ہنڈا سٹی کے لئے خاص شکل ما ضی میں 2009کو متعارف کروائی گئی اور یہ آٹھ سال سے زیادہ وقت سے بنا کسی رکاوٹ کے فروخت ہو رہی ہے۔جو بھی ہے،یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اس گاڑی کو فروخت ہوتے اب تقریباًایک دہائی ہو چکی ہے۔ماضی میں 2009میں جب یہ آئی، توکئی لوگوں نے اس کی شکل پر مایوسی کا اظہار کیا۔مگرحال میں،نئی شکل اور ڈیزائن دونوں کو ہی پزیرائی ملی۔
2016پہ آئیں تو،یہ جانی پہچانی گاڑی فروخت کے اعتبار سے صرف ٹویوٹا کرولا اور سوزوکی مہران سے پیچھے تھی۔
یا توآٹوموٹِو انڈسٹری نے سیلز یقینی بنانے کے لئے کم سے کم ضروریات کا اندازہ لگا لیا ہے،انڈسٹری ماہرین کے مطابق صارفین بھی مینو فیکچررز پر زیادہ دباؤ نہیں ڈالتے کہ وہ بہتری لائیں۔یہ ایک قدرتی عمل ہے کہ اگرآلٹریشنز بہت کم ہوں تو مکمل طورپر نئی پراڈکٹ کولایا ہی نہ جائے۔
صارفین کی خاص ضروریات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ریجن کی ضروریات کو پورا نہ کرنے کے ذمہ دار مینو فیکچررز ہیں۔کسی نئی پراڈکٹ کواپنے نئے ہونے کا تاثر برقرار رکھنے کے لئے پرانی پراڈکٹ سے بالکل تھوڑی یا نہ ہونے کے برابر مماثلت رکھنی چاہیے۔
شاید صارفین کی طبیعت میں کمزوری پائی جاتی ہے، اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ آبادی کا رجحان کس طرف ہے۔ بحیثیتِ مجموعی،صارفین ایک ایسی گاڑی کی قیمت ادا کرنے کی خواہش رکھتے ہیں جو ان کی تمام ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔اب،کچھ مقامی مینوفیکچررز مطمئن نظر آتے ہیں۔شروعات کرنے کے لئے جدید ڈیزائن،آر اینڈ ڈی،اور ریجن سے متعلق خصوصیات رکھتی پراڈکٹ کبھی بھی فراہم نہیں کی گئی۔
زیادہ تر صارفین،ہنڈا سٹی کا نیا ماڈل محض پیسے خرچنے کی خواہش رکھنے کے لئے خریدتے ہیں وہ بھی اس پر جس کی وہ پوری طرح حوصلہ افزائی بھی نہیں کر سکتے اور نہ ہی اس کی انہیں ضرورت ہے۔ صارفین کی اس ذہنیت کو ناگزیر طور پر استعمال کیا جاتا ہے، اسی لئے زیادہ سپیسفیکیشن پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔
ہنڈا کو دوسری گاڑیوں پر ترجیح دیناقدرتی طور پر مثالی ہے،یہ ایک سٹیٹس سمبل کی طرح ہے۔اس کے برعکس،سوزرکی سیڈان(بلینو اور لیانا) اس جیسی کامیابی کا مزہ لینے کے قابل نہیں یہی وجہ ہے اس کا متبادل قابلِ عمل ہے کہ نہیں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے۔
جب صارف کی تسلی کی بات کی جائے تو اس کی پسند کا کوئی پیمانہ نہیں ہے۔خیر جو بھی ہے،اگر بڑی کمپنیوں جیسے پاک سوزوکی اور اٹلس ہنڈا کو چلانے اوران پر صارفین کی تسلی پر توجہ دینے کی بات کی جائے،تووہ گاڑیاں جو کچھ نئی یا انوکھی خصوصیت نہ رکھتی ہوں انہیں خریدنا نہیں چاہیے۔
صارفین کو خیال کرنا چاہیے کیونکہ ایسا کر کے وہ اپنے ساتھ ہی غلط کر رہے ہیں: جب پینڈولم دونوں جانب پوری طرح حرکت کے گا۔جب فروخت کی صحیح طرح سے وضاحت نہ ہو تو صارفین کیا محصوص کریں گے یوں مینوفکچررز کے پاس کام کرنے کے لئے زیادہ کچھ نہیں ہو گا۔
گاڑی کے ماہرین اس سے زیادہ کچھ نہیں رکھتے کہ نئے خیالات کو پزیرائی دی جائے اور بڑے پیمانے پر  تبدیلی آئے۔پاکستان میں،سیڈان طرز کی گاڑیاں ٹویوٹا اور ہنڈا مل کر دیکھتے ہیں۔کسی نئی ایجاد کی اشد ضرورت محصوص کرنا مینو فیکچررز کی سرے سے لاپرواہی کا ثبوت ہے۔اور تو اور،اس سے صارفین کی عدم دلچسپی بھی ظاہر ہوتی ہے۔ہنڈا جیسی کمپنیوں کو لگاتار بہتر بنایا جانا چاہیے۔نتیجتاً،فروخت میں کمی یا زیادتی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ مینو فیکچررزکو خود کو کسی حد تک شہ دینی چاہیے کہ وہ اپنے قابلِ احترام صارفین کی ضرورتوں پر نظر ثانی کریں اور انہیں پورا کریں۔

Exit mobile version