درآمد شدہ گاڑیوں کی کلیئرنس تنازع کی زد میں

طویل رسہ کشی کے بعد حکومت نے پرانی گاڑیوں کی گزشتہ درآمدی پالیسی بحال کردی البتہ اب کسٹم کلیئرنگ ایجنٹوں اور ٹرمینل آپریٹرز کے درمیان ایک نیا تنازع اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ تفصیلات کے مطابق فریقین کے درمیان یہ تناؤ گاڑیاں تاخیر سے لینے پر جرمانے کی ادائیگی پر اٹھ رہا ہے، جو حکومت کی جانب سے نئی درآمدی پالیسی متعارف کروائے جانے کے بعد 141 دنوں تک کراچی پورٹ پر کھڑی رہیں۔ واضح رہے کہ تاخیر سے مال اٹھانے کا یہ جرمانہ 50 کروڑ سے ایک ارب روپے تک ہو سکتا ہے۔

مقامی روزنامے ڈان نے بتایا ہے کہ کسٹم ایجنٹس ایسوسی ایشن نے نجی ٹرمینل آپریٹرز سے تحریری صورت میں مطالبہ کیا کہ وہ گاڑیوں پر جرمانے سے دستبردار ہو جائیں۔ مزید برآں کراچی کسٹمز ایجنٹس کے سیکریٹری جنرل محمد عامر نے ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کسٹمز حکام سے بات کی ہے اور انہوں نے یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ delayed detention certificate جاری کریں گے جس کے بعد تاخیر سے مال اٹھانے کا جرمانہ قانوناً ختم ہو جائے گا۔ سادہ الفاظ میں ٹرمینل آپریٹرز کو سرٹیفکیٹ کے بعد گاڑیوں پر لگائے گئے جرمانے کو ہٹانا ہوگا۔ دیکھتے ہیں کہ یہ معاملہ کیا رخ لیتا ہے۔

ہم نے خود بھی ایک کلیئرنگ ایجنٹ سے رابطہ کیا، جنہوں نے بتایا کہ تمام گاڑیاں عام طریقے کے مطابق کلیئر کی جا رہی ہیں؛ البتہ جرمانے پر کچھ تنازع ہے جو جلد نمٹ جائے گا۔

23 فروری 2018ء کو وزارت تجارت نے ایک نیا SRO 261(1)/2018 جاری کیا تھا اور پرانی درآمدی پالیسی بحال کردی تھی۔ SRO کے تحت گاڑیوں کی ملک میں درآمد بحال ہوئی اور کراچی بندرگاہ پر پھنسی ہزاروں گاڑیوں کو پرانی درآمدی پالیسی کے تحت کلیئر کروانے کی اجازت مل گئی۔

مزید خبروں کے لیے پاک ویلز ڈاٹ کام دیکھتے رہیے۔

Exit mobile version