جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی حدود میں کریم اور اوبر گاڑیوں کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی

اپنے کام کے آغاز سے اب تک پاکستان میں رائیڈ-ہیلنگ سروسز عوام میں اپنی مقبولیت کا بھرپور لطف اٹھاتی آ رہی ہیں۔ البتہ وقتاً فوقتاً ان مشہور سروسز کو حکومت کی جانب سے کچھ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے، بنیادی طور پر اپنی آپریٹنگ پالیسیوں کی وجہ سے۔

اس کی تازہ ترین مثال جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ، کراچی کی ہے کہ جس کی حدود میں کریم اور اوبر کی گاڑیوں کے داخلے پر باضابطہ پابندی لگا دی گئی ہے۔ COO/ایئرپورٹ مینیجر کی جانب سے انتباہی بورڈ ہوائی اڈے کے داخلے پر باآسانی دیکھا جا سکتا ہے کہ جس میں مندرجہ ذیل انتباہ لکھا گیا ہے:

اوبر اور کریم کی گاڑیوں کا ایئرپورٹ سے مسافروں کا پک اپ اور کار پارکنگ میں داخلہ ممنوع ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں سخت قانونی کارروائی کی جائے گی نیز گاڑی بھی بند کی جائے گی۔

یہ پابندی تمام کریم اور اوبر گاڑیوں پر لگائی گئی ہے، جن میں موٹر سائیکلیں، کاریں، رکشے اور ان سے متعلق کوئی بھی گاڑی شامل ہیں۔ ایئرپورٹ انتظامیہ کی جانب سے پیش کیا گیا انتباہ اقدامات کے بارے میں بتاتا ہے کہ ڈرائیوروں کے خلاف کون سا قدم اٹھایا جائے گا۔ اگر کوئی شخص اس قانون کی خلاف ورزی کرتا پایا گیا تو ایئرپورٹ انتظامیہ اس کے خلاف سخت قدم اٹھائے گی، جس کا نتیجہ گاڑی کو ضبط کرنے کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔

جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی یہ پالیسی بظاہر سخت لگتی ہے، لیکن، وہ پہلی جگہ نہیں ہیں کہ جہاں اس نوعیت کی پابندی عائد کی گئی ہے۔ قبل ازیں دونوں رائیڈ ہیلنگ سروسز پر علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ، لاہور کی انتظامیہ بھی پابندی لگا چکی ہے۔

ایئرپورٹ کی جانب سے اچانک لیا گیا یہ فیصلہ چند لوگوں کے لیے انوکھا ہوگا، لیکن یہ ان سروسز کی جانب سے ماضی میں کیے گئے کاموں کا نتیجہ ہے۔ گزشتہ اکتوبر میں حکومتِ سندھ نے آن لائن ٹیکسی سروسز کو صوبے کے اندر ایک ہفتے میں اپنے آپریشنز کو قانونی دھارے میں لانے کا حکم دیا گیا تھا، اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں انہیں صوبے بھر میں پابندی کا سامنا کرنا پڑتا۔ اس کی وجہ، حکومت سندھ کے عہدیداروں کے مطابق، یہ تھی کہ یہ ٹیکسی سروسز حکومت کے طے شدہ احکامات سے ہٹ کر کام کر رہی ہیں۔

اس مرتبہ سرکاری ذرائع کے مطابق ، مشہور آن لائن ٹیکسی سروسز پر پابندی کا فیصلہ ان کی جانب سے اپنے کام کی نوعیت کو مزید پھیلانا تھا۔ سادہ الفاظ میں یہ کہ ان کی توسیع کا نتیجہ زیادہ آمدنی کی صورت میں نکلا ہوگا اور ساتھ ہی ٹیکس رقوم میں بھی کہ جو انہیں اپنے مسلسل آپریشنز کے نتیجے میں حکومت کو ادا کرنے ہیں، لیکن اب تک یہ دونوں کمپنیاں ایسا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

بلاشبہ ملک بھر میں اپنے آپریشنز کو ہموار انداز میں جاری رکھنے کے لیے ان ٹیکسی سروسز کو بحسن و خوبی قانونی دھارے میں آنا ہوگا، بصورتِ دیگر جیسا کہ کہا جا رہا ہے کہ اس کا نتیجہ صارفین کے لیے کرایوں میں اضافے کی صورت میں نکلے گا اور یوں عوام کی طرف سے انہیں سخت ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

پاکستان اور دنیا بھر سے دیگر آٹوموٹِو خبروں کے لیے پاک ویلز پر آتے رہیے۔

Exit mobile version