ملک بھر میں یکساں ٹیکسیشن پالیسی کا فقدان، پنجاب ایکسائز پریشان

اپنا گھٹتا ہوا ریونیو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش میں حکومت پنجاب نے لگژری ٹیکسیشن کی شرح کم کردی۔ لیکن اس کے بھی مطلوبہ نتائج نہیں نکل پائے کیونکہ درآمد شدہ گاڑیوں کے مالکان اب بھی اپنی گاڑیوں کو ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ اسلام آباد سے رجسٹر کروا رہے ہیں۔

ملک میں ٹیکسیشن کی شرح یکساں نہ ہونے کی وجہ سے خاص طور پر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پنجاب کے لیے بہت ہولناک صورت حال ہے جو اسلام آباد کے ہاتھوں کافی ریونیو گنوا چکا ہے۔

گاڑی کی رجسٹریشن اسلام آباد سے کروانے کی ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ لگژری ٹیکس کی شرح وہاں کم ہے، جس کی وجہ سے وہ زیادہ صارفین کی توجہ حاصل کرتا ہے۔

اس صورتحال کا آغاز 2016ء میں ہوا جب اُن درآمد شدہ گاڑیوں پر لگژری ٹیکس لگایا گیا کہ جو 1300cc سے زیادہ کی انجن گنجائش رکھتی ہیں۔ پنجاب ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ نے پنجاب فائنانس ایکٹ 2016ء میں ترمیم کے ذریعے نیا ٹیکس سسٹم لاگو کیا، جس کا بنیادی ہدف زیادہ ریونیو جمع کرنا ہے۔ بدقسمتی سے اس فیصلے کا نتیجہ اُلٹا نکلا۔

لگژری ٹیکس:

انجن کی گنجائش کے اعتبار سے درآمد شدہ گاڑیوں پر لاگو لگژری ٹیکس کی شرح کچھ یوں ہے:

جیسا کہ اوپر حوالہ دیا گیا ہے کہ لگژری ٹیکس 70,000 روپے سے شروع ہوتا ہے اور 2500cc انجن رکھنے والی گاڑیوں کے لیے 3,00,000 روپے تک جاتا ہے جو صارفین سے لی جانے والی اچھی خاصی رقم ہے۔ داستان یہیں ختم نہیں ہوتی کیونکہ پنجاب میں درآمد شدہ گاڑیوں کو رجسٹریشن فیس، وِدہولڈنگ ٹیکس، انکم ٹیکس اور ٹوکن ٹیکس کے نام پر باقی تمام ٹیکس بھی دینا ہوتے ہیں۔

رجسٹریشن فیس کے سلیبس:

اگر گاڑی 1300cc سے 1500cc کے درمیان کا انجن رکھتی ہو تو ایک مرتبہ کسٹمز سے کلیئر ہونے کے بعد کل مالیت کا 2 فیصد بطور رجسٹریشن فیس دینا پڑتا ہے۔ اسی طرح 2000cc تک کی گاڑیوں کو کُل مالیت کا 3 فیصد جبکہ 2000cc سے زیادہ کی گنجائش رکھنے والی گاڑی پر 4 فیصد لاگو ہے۔

سالانہ ٹوکن ٹیکس:

اسی طرح 1300cc گاڑیوں کے لیے ٹوکن ٹیکس 1800 روپے، 1301cc اور 1500cc کے درمیان کی گاڑیوں کے لیے 6000 روپے اور 1501cc سے 1591cc کی گاڑیوں کے لیے 9000 روپے ہے۔

درآمد شدہ گاڑیوں کے لیے ٹوکن ٹیکس بالکل مختلف اور کہیں زیادہ ہے کیونکہ یہ موٹر وہیکل ٹیکس (MVT) کے خاص زمرے میں آتی ہیں۔ اس میں 1590cc سے 1990cc کے درمیان کی گاڑیوں پر 20,000 روپے ٹوکن ٹیکس لاگو ہوتا ہے جو مقامی طور پر تیار ہونے والی گاڑیوں سے بھی اسی زمرے میں لیا جاتا ہے۔ اسی طرح 1991cc سے 2990cc کے درمیان کی گاڑیوں پر 25,000 روپے ٹوکن ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔ دوسری جانب مقامی گاڑیوں سے 2500cc تک 12,000 روپے اور 2500cc سے زیادہ کے انجن رکھنے والی گاڑیوں سے 15,000 روپے لیے جاتے ہیں۔ درآمد شدہ گاڑیوں میں 2990cc کی گاڑیوں کے لیے ایک اور کیٹیگری ہے کہ جس سے 35,000 روپے ٹیکس لیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ مقامی طور پر اسمبل شدہ گاڑیوں کے لیے ایسی کوئی کیٹیگری نہیں ہے۔

 

اسلام آباد رجسٹریشن کے فائدے:

دوسری جانب اسلام آباد ایکسائز میں درآمد شدہ گاڑیوں کے لیے کوئی علیحدہ ٹیکس نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان گاڑیوں کی رجسٹریشن پر کوئی لگژری ٹیکس چارج نہیں کیا جاتا۔ اپنی گاڑی کو رجسٹر کروانے والا کوئی بھی شخص پنجاب کے بجائے اسلام آباد رجسٹریشن کو بہتر پاتا ہے۔ آخر کار لگژری ٹیکس کی صورت میں بہت بڑی رقم جو بچتی ہے جو گاڑیوں کے مالکان کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ اسلام آباد ایکسائز سے رجسٹریشن کروانے کا ایک اور فائدہ صرف دو رجسٹریشن فیس سلیبس کا ہونا ہے جبکہ پنجاب میں یہ تین ہیں۔ 1000cc سے 1999cc تک کی درآمد شدہ گاڑیوں سے کسٹمز ڈیوٹی کی ادائیگی کے بعد کُل مالیت کا 2 فیصد چارج جبکہ 2000cc سے زیادہ کی گاڑیوں پر 4 فیصد چارج کیا جاتا ہے۔

البتہ دیگر ٹیکس بشمول وِدہولڈنگ ٹیکس اور انکم ٹیکس پنجاب اور اسلام آباد میں یکساں ہیں۔ سالانہ ٹوکن ٹیکس میں بہت زیادہ فرق ہے کیونکہ پنجاب میں 1800cc سے زیادہ کے انجن رکھنے والی گاڑیوں کو 25,000 روپے ادا کرنا پڑتے ہیں جبکہ اسلام آباد میں اسی انجن کی رجسٹرڈ گاڑی کے لیے یہ تقریباً 5,000 روپے ہے۔ واضح رہے کہ سالانہ ٹوکن ٹیکس انکم ٹیکس اور موٹر وہیکل ٹیکس (MVT) پر مشتمل ہے، جن میں سے آخر الذکر وفاقی دارالحکومت اور پنجاب کے لیے ایک ہی ہے۔

نتیجتاً ، ٹوکن ٹیکس میں فرق، لگژری ٹیکس کا نفاذ اور اضافی رجسٹریشن فیس سلیبس پنجاب میں گاڑیاں رجسٹر کروانے کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ دریں اثناء، اسلام آباد ایکسائز نے پنجاب سے بڑا ریونیو حاصل کا ہے۔ 2016ء میں لگژری ٹیکس کے نفاذ سے قبل پنجاب نے 10,141 درآمد شدہ گاڑیاں رجسٹر کیں، جن کی مدد سے 782.8 ملین روپے کا کل ریونیو حاصل کیا۔ البتہ‏2016-17ء‎ میں یہ تعداد گرتے ہوئے 4271 گاڑیوں اور 343.2 ملین کے ریونیو تک پہنچ گئی جو گزشتہ سال کے مقابلے میں نصف سے بھی کم تھا۔ اسی طرح یہ رحجان جاری رہا اور سال ‏2017-18ء‎ کے دران پنجاب میں رجسٹر ہونے والی اس کیٹیگری کی درآمد شدہ گاڑیوں کی تعداد 4913 رہ گئی۔

گزشتہ حکومت کی جانب سے لگژری ٹیکس کا نفاذ ایک بہت بڑی غلطی لگتی ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں ریونیو میں کمی آئی۔ پنجاب ایکسائز کے حکام کے مطابق یہ گزشتہ صوبائی حکومت کے دوران معاملہ بین الصوبائی رابطہ کمیٹی میں اٹھایا گیا تھا۔ صوبے میں گاڑیوں کی رجسٹریشن کی تعداد بڑھانے کے لیے ایک یکساں ٹیکس شرح کی تجویز دی گئی تھی۔ بدقسمتی سے یہ کوشش ناکام رہی کیونکہ سالانہ ٹوکن ٹیکس میں یکساں ٹیکسیشن کے بغیر لگژری ٹیکس برقراررہا۔

پاکستان تحریک انصاف کی زیر قیادت پنجاب حکومت نے ریونیو کے لیے درآمد شدہ گاڑیوں پرلگژری ٹیکس کو کم کیا لیکن کا فائدہ نہیں ہوا۔ صوبے میں متعدد ڈیلرز کے مطابق لگژری ٹیکس کی موجودگی اور سالانہ ٹوکن ٹیکس کا فرق بنیادی وجہ ہیں جن سے پنجاب درآمد شدہ گاڑیوں کی رجسٹریشن کھو رہا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں اس نے نہ صرف محکمہ ایکسائز کو متاثر کیا ہے بلکہ اس کا نتیجہ پنجاب کی رجسٹرڈ درآمد شدہ گاڑیوں کی خوبی سے بھی محرومی کی صورت میں نکلا ہے۔

حکومت کے لیے ایک یکساں لگژری ٹیکس لاگو کرنے کا وقت آ چکا ہے۔

اس بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ ہمیں نیچے تبصروں میں ضرور آگاہ کیجیے اور آٹوموبائل انڈسٹری کی مزید خبروں کے لیے پاک ویلز پر آتے رہیے۔

Exit mobile version