لیکسز ٹویوٹا ہائی لکس 2016 کو نئی جہت دے گا یا نہیں؟
پاکستان میں پُر حجم گاڑیوں میں سب سے زیادہ ٹویوٹا ہائی لکس پسند کی جاتی ہے۔ پہلے اسے ٹھیکیداروں، بڑی بڑی عمارتوں کے معماروں یا پھر کھیت کھلیان میں کام کرنے والے کسانوں کی گاڑی سمجھا جاتا تھا لیکن اب اس کی شہرت بڑے اور پرتعیش بنگلوں میں رہنے والے امیروں سے ہونے لگی ہے۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں تو چمکتی ہوئی سیاہ یا دودھ کی طرح سفید سیڈان گاڑیوں کے پیچھے چلنے والی ہائی لکس کے نظارے تو عام بات ہوچکے ہیں۔ ہائی لکس کی سب سے جدید جنریشن چند ماہ قبل ہی تھائی لینڈ میں پیش کی گئی اور وہ بھی پاکستان درآمد کی جا چکی ہے۔
اگر آپ بھی یہ گاڑی لینا چاہیں تو 60 سے 65 لاکھ روپے میں تھائی ٹویوٹا ہائی لکس باآسانی پاکستان منگوا سکتے ہیں۔ سچ پوچھیئے تو یہ ہائی لکس جیسی “لکڑ ہضم پتھر ہضم” گاڑی کے لیے بہت زیادہ رقم ہے۔ دنیا بھر میں یہ گاڑی ہر طرز پر استعمال ہو رہی ہے جن میں مشین گن لگا کر اسے بطور جنگی گاڑی کے طور پر استعمال بھی شامل۔ چند ہفتوں قبل امریکا نے بھی اس حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ٹویوٹا سے داعش کے زیر استعمال ہائی لکس گاڑیوں سے متعلق تفصیلات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
اب ان لوگوں کے لیے جو اس گاڑی کو اپنی امارت ظاہر کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، لیکسز نے پرتعیش ہائی لکس تیار کرنے کی تجویز پر غور شروع کردیا ہے۔ مرسڈیز کی جانب سے GLT کلاس کا تصور پیش کیے جانے کے بعد کار ساز اداروں کو اندازہ ہورہا کہ بڑی اور پُر حجم گاڑیوں کو صرف مضبوط ہی نہیں بلکہ خوبصورت بنانا بھی ناگزیر ہے۔ GLT دراصل نسان نوارا کی مشین پر بننے والی گاڑی ہے جسے مرسڈیز بینز نے ڈیزائن کیا ہے۔ یہ سال 2019 کے قریب قریب پیش کی جائے گی۔ لیکسز نے اس زمرے میں بھی مرسڈیز سے مسابقت کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنا پرتعیش ٹرک پیش کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ مرسڈیز تو اپنے خیال کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے نسان سے مدد لے رہا ہے لیکن لیکسز کی خوش قسمتی ہے کہ اسے اِدھر اُدھر جانے کی بالکل ضرورت نہیں کیوں کہ ٹویوٹا ہائی لکس 2016 اس کام کے لیے بہترین انتخاب ہے اور وہ تو ہے ہی گھر کی پیداوار۔
لیکسز میں منصوبہ کار ماکوتو تاناکا نے ایک آسٹریلوی ویب سائٹ سے گفتگو کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ وہ GLT کے مقابلے میں ایک گاڑی پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ لیکن انہوں نے یہ بھی باور کروایا کہ مجوزہ منصوبہ فی الحال لیکسز کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ اب آپ تصور کریں کہ مرسڈیز اپنے اچھوتے خیال کو عملی جامہ پہنا لیتی ہے اور عوام میں اسے بے پناہ مقبولیت بھی حاصل ہوتی ہے تو ٹویوٹا اور لیکسز ضرور اس میں پہل نہ کرنے پر پچھتائیں گے۔ لیکن اصل بات تو یہ ہے کہ اس وقت ان سب کا ذمہ دار کس کو ٹہرایا جائے گا؟