پاک سوزوکی اپنی پیداوار کم نہیں کرے گا
ہونڈا اٹلس اور ٹویوٹا انڈس کے مقابلے میں پاک سوزوکی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور گھٹتی ہوئی فروخت کی وجہ سے اپنی گاڑیوں کی پیداوار کم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں رکھتا۔
پاک سوزوکی نے جولائی سے دسمبر 2019ء تک اپنا پیداواری حجم کم کرنے کی تمام افواہوں کی تردید کی ہے۔ بلکہ مینوفیکچرر اس مخصوص عرصے میں 76,000 گاڑیوں کی پیداوار کا ہدف حاصل کرنا چاہتا ہے۔ سال 2019ء کی ابتدائی ششماہی میں کمپنی نے کامیابی سے 60,000 یونٹس کی پیداوار کی اور وہ اس پیداواری سطح کو کم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ پاک سوزوکی نے پارٹ سپلائرز اور وینڈرز پر بھی سال کے باقی چھ ماہ کے لیے اپنی یہ پالیسی واضح کی ہے۔
پاکستان کے دو بڑے آٹو مینوفیکچررز ہونڈا اٹلس اور ٹویوٹا انڈس نے حال ہی میں وفاقی بجٹ 2019-20ء میں زیادہ ٹیکس لاگو کرنے کی وجہ سے اپنے پیداواری پلانٹس بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہونڈا اٹلس نے گزشتہ ہفتے سے دس دن کے لیے پلانٹ بند کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ کاروں کی فروخت میں نمایاں کمی کی وجہ سے اس کے پاس 2000 یونٹس پہلے سے تیار موجود ہیں۔ اسی طرح ٹویوٹا انڈس نے بھی رواں ماہ آٹھ دن کے لیے اپنی پیداوار بند کی ہے یعنی ہر ہفتے میں دو دن۔ آٹومیکر دعویٰ کرتا ہے کہ جون کے مہینے اور جولائی کے ابتدائی 10 دنوں کے لیے ان کے پاس وافر مقدار میں مصنوعات موجود تھیں اس لیے وہ پیداوار کو گھٹانے پر مجبور ہوئے۔ آٹو انڈسٹری پاک سوزوکی کے فیصلے کی شدت سے منتظر تھی کہ جو کاروں پر زیادہ ٹیکس اور ڈیوٹی پر پیچھے ہٹتی نہیں دکھائی دیتی۔
ملک میں کاروں کی فروخت کا رجحان گزشتہ چند ماہ سے بدترین رخ پر ہے۔ امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل اور بدترین گراوٹ نے گاڑیوں کی قیمت میں زبردست اضافہ کیا ہے۔ دوسری جانب حکومت نے ملک میں گاڑیوں پر مختلف ٹیکس اور ڈیوٹیز لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مقامی طور پر اسمبل اور درآمد شدہ گاڑیوں پر بالترتیب فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (FED) اور ایڈوانسڈ کسٹمز ڈیوٹی (ACD) کا نفاذ گاڑیوں کی قیمتوں کو بہت زیادہ اضافے کا باعث بنا۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاک سوزوکی کی تیار کردہ گاڑیوں پر FED کا اثر دیگر کمپنیوں کے مقابلے میں نسبتاً کم پڑا ہے۔ کیونکہ اس کی بیشتر گاڑیاں 1000cc انجن کے زمرے میں آتی ہے، جہاں FED محض 2.5 فیصد ہے جبکہ 1000cc سے زیادہ کی گاڑیوں پر یہ شرح 5 فیصد ہے۔ پھر پاک سوزوکی اعلیٰ درجے کی گاڑیاں بھی نہیں بناتا، جس کی وجہ سے صورت حال کمپنی کے حق میں ہے۔ صارفین کی قوتِ خرید بھی بہت کم ہو گئی ہے اور ان کی بڑی تعداد اب صرف ابتدائی نوعیت کی ہیچ بیکس ہی خرید سکتی ہے۔ نتیجتاً وہ پاک سوزوکی کی مقامی طور پر اسمبل شدہ کاروں کا رخ کر رہے ہیں۔
یہ ایک مثبت علامت ہے کہ ہم پاک سوزوکی کی جانب سے اپنی پیداوار میں کوئی کمی نہیں دیکھیں گے لیکن مقامی مارکیٹ کے دوسرے بڑے اداروں کے لیے صورت حال خطرناک ہے۔ زیادہ وقت نہیں گزرا یہ کمپنیاں مارکیٹ کی طلب کو پورا نہیں کر پا رہی تھیں، لیکن اب حالات الٹ ہو چکے ہیں اور ان کے پاس گاڑیاں وافر مقدار میں موجود ہیں۔ اگر اگلے مہینے میں کاروں کی فروخت میں اضافہ نہیں ہوا تو پیداوار میں مزید کمی ہونا متوقع ہے۔ فا اور یونائیٹڈ جیسے نئے اداروں کو ابھی اس صورت حال کا سامنا نہیں کیونکہ ان کا مارکیٹ شیئر ویسے ہی کم ہے۔ کاروں کی فروخت میں کمی کو حکومت کی جانب سے سنجیدگی سے دیکھنا چاہیے کیونکہ اس سے مقامی صنعت کی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوگی اور یہ انتہائی غیر یقینی کیفیت کی وجہ سے نئے اداروں کی مارکیٹ میں داخل ہونے کی حوصلہ شکنی کرے گی۔ میری رائے میں ایسی معاشی حالت میں حکومت کو گاڑیوں پر عائد اضافی ٹیکس واپس لینے چاہئیں تاکہ ان کی قیمتیں مناسب ہو جائیں اور صارفین انہیں خرید سکیں۔
اس بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ ہمیں تبصروں میں ضرور آگاہ کیجیے اور آٹوموبائل انڈسٹری کی مزید خبروں کے لیے پاک ویلز پر آتے رہیے۔