پاک سوزوکی نے 2019ء کی پہلی ششماہی کے دوران 1.5 ارب روپے کا خسارہ ظاہر کردیا
پاک سوزوکی موٹر کمپنی لمیٹڈ نے 30 جون 2019ء کو مکمل ہونے والی 2019ء کی پہلی ششماہی کے مالیاتی نتائج بھی ظاہر کردیے اور اُن سے کمپنی کو 1.5 ارب روپے کا خسارہ ظاہر ہوتا ہے۔
ملک کے بڑے آٹو مینوفیکچررز میں سے ایک پاک سوزوکی اقتصادی سست روی کے موجودہ دور میں سب سے کم متاثر ہوا ہے لیکن پھر بھی اعداد و شمار نے کمپنی کے منافع میں کمی ظاہر کی ہے۔ جاپانی ادارے نے 2018ء کے اسی عرصے میں 1.29 ارب روپے کا منافع حاصل کیا تھا۔ اس عرصے میں پاک سوزوکی کی مجموعی فروخت گزشتہ سال کے 62.39 ارب روپے کے مقابلے میں 4.86 فیصد اضافے کے ساتھ 65.42 ارب روپے ہوئی۔ حجم میں 11.26 فیصد کی کمی کے باوجود خالص فروخت میں ہونے والا یہ مخصوص اضافہ گزشتہ چھ ماہ میں گاڑیوں کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے ہوا۔
حکومت کی جانب سے ماضی قریب میں لگائی گئی ڈیوٹیز اور ٹیکسز کی بدولت اور فی الوقت پروڈکشن کی لاگت زیادہ ہونے کی وجہ سے آٹو مینوفیکچررز کے لیے صورت حال بہت خراب ہوگئی ہے۔ امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی بھی آٹو انڈسٹری کے لیے اچھا شگون نہیں کیونکہ خام مال کی لاگت بہت تیزی سے بڑھی ہے۔ حکومت نے بھی خام مال کی درآمد پر 5 فیصد ایڈوانسڈ کسٹمز ڈیوٹی (ACD) لگا کر صورت حال کو بدتر بنانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (FED) مارکیٹ کے اہم حلقوں کی جانب سے طویل عرصے سے تنقید کا نشانہ ہے جن کا ماننا ہے کہ آٹو سیکٹر اضافی ڈیوٹیز برداشت نہیں کر سکتا۔ پاک سوزوکی کے لیے فروخت پر آنے والی لاگت بھی 10.32 فیصد اضافے کے ساتھ 58.06 ارب روپے سے 64.05 ارب تک پہنچی، جس نے کُل منافع کے مارجن کو نیچے لانے میں بڑا کردار ادا کیا۔ کمپنی کا منافع 2018ء کی پہلی ششماہی میں 4.36 ارب روپے کے مقابلے میں 68.58 فیصد کی بہت بڑی کمی کے ساتھ صرف 1.37 ارب روپے تک پہنچا۔ آٹو مینوفیکچرر کی فروخت شدہ ہر ماڈل کی گاڑیوں کے حجم کی تفصیلات کچھ یوں ہیں:
مندرجہ بالا اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ سال 2019ء کی پہلی ششماہی میں فروخت کے حجم کے اعتبار سے کمپنی پچھلے سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں کُل 11.25 فیصد کی کمی سے گزری۔ البتہ اس کمی کی بڑی وجوہات میں سے ایک مہران کا خاتمہ بھی ہے، جو پہلے فروخت کے حجم میں بڑا حصہ ڈالتی تھی۔ نئی 660cc کی آلٹو کو بڑی امیدوں کے ساتھ متبادل کے طور پر پیش کیا گیا ہے کہ اسے مہران کے خاتمے سے پیدا ہونے والا خلا پُر کرنا ہے۔ کمپنی شروع ہوتے ہی آلٹو کے 1685 یونٹس فروخت کر چکی ہے۔ اس سے ہٹ کر سوزوکی سوئفٹ کو بڑے نقصان کا سامنا رہا کہ جس کی فروخت 23.74 فیصد کم ہوئی، جبکہ بولان اور راوی کی فروخت میں بالترتیب 15.61 فیصد اور 12.44 فیصد کمی آئی۔ دوسری جانب فروخت کے معاملے میں ویگن آر بدستور آٹو میکر کی ریڑھ کی ہڈی بنی رہی کہ جس کی فروخت آٹو انڈسٹری کو درپیش تمام تر مسائل کے باوجود 8.87 فیصد بڑھی۔ کلٹس نے بھی صارفین کا اعتماد حاصل کرنا شروع کردیا ہے کہ جس کی فروخت سال 2019ء کی پہلی ششماہی میں 8.53 فیصد بڑھی۔
شرحِ سود میں اضافے کی وجہ سے آٹو میکر کی مالیاتی لاگت بھی 92.86 ملین روپے کے اضافے کے ساتھ 706.42 ملین روپے بڑھ گئی ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ فی حصص 15.77 روپے کی آمدنی کے مقابلے میں پاک سوزوکی 18.53 روپے فی شیئر کے نقصان سے بھی دوچار ہوئی۔ البتہ کمپنی کو 600 ملین روپے کے ٹیکس ریورسل کا فائدہ ملا۔
پاک ویلز ہمیشہ آٹو سیکٹر کے صارفین کی آواز اٹھانے پر توجہ رکھتا ہے اور حکومت کی جانب سے لگائے گئے نئے ٹیکس اور ڈیوٹیز بلاشبہ غیر منصفانہ ہیں اور انہیں جلد از جلد واپس لینا چاہیے۔ اس بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ ہمیں نیچے تبصروں میں ضرور بتائیں اور آٹوموبائل انڈسٹری کے اعداد و شمار پر مشتمل مزید خبریں جاننے کے لیے پاک ویلز پر آتے رہیں۔