پاک وہیلز کی علی عظمت سے خصوصی گفتگو۔

whatsapp-image-2017-06-12-at-3-06-57-pm
٭   آپ نے موٹر سائیکل اور گاڑیوں میں دلچسپی لینا کیسے شروع کی؟
    میرے نزدیک اس شوق کے جنون کا سفر بچپن میں کھلونا گاڑیوں سے کھیلتے ہی شروع ہو جاتا ہے۔جب میں محض ایک چھوٹا سا لڑکا تھا اس وقت میرے والد ایک رینٹ اے کار کا کاروبار چلاتے تھے ہر روز مجھے سکول سے لینے کے لئے ایک نئی گاڑی آتی اور مجھے ایک امیر گھرانے کا چشم و چراغ ہونے کا احساس ہوتا۔اس سے ایک مشغلے کا آغاز ہوا،جو کہ بعد میں ایک خیالی دنیاکا موجب بنا جس میں خود کومیں اپنی پسندیدہ گاڑیوں کو چلاتا محصوص کرتا تھا پھر میں عملی زندگی میں داخل ہوا اور میں نے اپنی پہلی گاڑی سوزوکی ایف ایکس خریدی جو کہ میں نے اٹھارہ سال کی عمر میں ہی اپنے گائیکی کے کریئر سے لی۔
٭   راک سٹارز بنیادی طور پر ’بیڈ بوائز‘کے نام سے جانے جاتے ہیں اور اکثر اپنی موٹر بائیکس کی وجہ سے مشہور ہوتے ہیں،آپ نے اپنی پہلی موٹر بائیک کب خریدی؟
میری پہلی موٹر سائیکل کاواساکی ٹریل کے۔ ای 100تھی اور میں نے جھیل سیف الملوک کااپنا پہلا سفر کچھ دوستوں کے ہمراہ اسی بائیک پر مکمل کیا تھا۔2011میں جائیں تومیں نے ایک بی ایم ڈبلیو ایف سِکس ففٹی جی ایس خریدی،اس کے بعد ایف ایٹ ہنڈرڈ جی ایس اور موجودہ دوور میں مجھے فخر ہے کہ میں ٹاپ آف لائن ماڈل بی ایم ڈبلیو ایف ٹویلوہنڈرڈ جی ایس کا مالک ہوں،اور میں یہ بھی مانتا ہوں کہ کچھ غرصہ تک یہ میرے خوابوں کی شہزادی رہی ہے یہاں تک کہ مجھے آج بھی یقین نہیں آتا کہ میرے پاس یہ بائیک ہے۔میں نے اس خوبصورت مشین پر چائنہ پارکارغزستان اور تاجکستان کے سفر کا ارادہ کیا تھا مگر بد قسمتی سے ویزے کے بعض مسائل کی وجہ سے ہمیں کارغزستان سے ہی واپس لوٹنا پڑا۔یکم ستمبر 2017کو،ہم ایک بار پھر(چائنہ پار،کارغزستان،ازبکستان اور تاجکستان)ان خوبصورت ممالک کے حسین و جمیل مناظر اور پہاڑوں سے لطف اندوز ہونے تقریباً آٹھ ہزار پانچ سو کلو میٹر کی مہم پر جا رہے ہیں۔
ٓ٭   اس کے علاوہ کوئی اور موٹر بائیک ٹوئر جس کا آپ حصہ رہے ہوں؟
  میں اس سوال کے جواب کی شروعات اپنے تین اکیلے کراچی سے لاہو ر کے ٹرپس سے کروں گا،جو کہ میں نے مختلف موقعوں پر کراچی پورٹ سے اپنی موٹر بائیکس کی ڈلیوری کے بعد کئیے۔اس کے علاوہ میں سوات ویلی،گِلگت،براغِل ویلی،کامرات ویلی اور حال ہی میں شمشل ویلی بھی گیا۔لوگ لاہور سے خنجراب کو ہی مائل سٹون تصور کرتے ہیں،لیکن میرا یقین کریں،پاکستان میں خنجراب پاس کے علاوہ بھی دیکھنے کو بہت کچھ ہے۔تو کسی بھی خوبصورت جگہ جانے کے بعد اپنے آپ کو محدود مت کر لیں،بلکہ اسے شروعات ہی سمجھیں۔
مہمات میرے لئے ایک مشغلہ ہی نہیں ہیں،بلکہ میرے لئے یہ اس تیز رفتار اور افراتفری کی زندگی سے نکلنے کا ایک راستہ ہیں۔تو میرے لئے گاڑی یا بائیک پر ان لمبی مہمات پر جانا مناظر دیکھنے کے علاوہ بھی بہت کچھ رکھتا ہے۔سیروتفریخ شروع سے ہی ہمارے خاندان کا خاصا رہی ہے،جو کہ باآسانی اپنائی جا سکتی ہے۔ ایسے موقع پر زیادہ ترمیں اپنے انکل کی مثال دیتا ہوں،جو کہ اپنی چھوٹی سی سوزوکی کار پر اپنی پوری فیملی کو پاکستان بھر میں لمبے سفر پر لے جایا کرتے تھے۔
ایک مشہور کہاوت ہے جو میں نے سفر کے شوقین حضرات سے سنی ہے کہ”گھومنے پھرنے سے کوئی کھو نہیں جاتا“اور میرا یقین کریں،جب بھی میں کسی سفر پر گیا ہوں میں نے کچھ نیا ہی دریافت کیا ہے،جو کہ آزادی سے گھومنے کی وجہ سے ہے۔
e
٭    اپنے سفر کا ایسا کوئی یادگار واقعہ جو آپ ہمیں سنانا چاہیں گے؟
بدقسمتی سے انسانی دماغ خوشی کے علاوہ زیادہ تر مرنے مرانے والے واقعات یاد رکھتا ہے،اور میرے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی ہے۔میں اپنے چترال ڈسٹرک اپر نارتھ کی جانب بروغلی کے سفر کوہمیشہ یاد رکھوں گا۔ہم نے چترال مستونگ بروغلی کے راستے کا انتخاب کیااور یہ میرا اب تک کا سب سے مشکل اور آنکھیں کھول دینے والا سفر تھا۔نہ صرف اس راستے نے ہماری جسمانی طاقت کو آزمایا بلکہ راستے بھر ہمیں نا گزیر حقیقت یعنی جنوں بھوتوں،سایہ،پریت یا انہیں آپ جو بھی کہتے ہوں کے موجود ہونے کا احساس بھی ہوتا رہا۔آج بھی جب میں اس سب کا ذکر کرتا ہوں تو زیادہ تر لوگ مجھ پر ہنستے ہیں لیکن وہ پانچ موٹر سائیکل سوار اور دو گاڑیوں والے حضرات جو اس وقت ہمارے ساتھ تھے وہ سب بھی یہی کچھ محصوص کر رہے تھے۔جب ہم مستونگ پہنچے،میں نے چترال سکاؤٹس میس کے ایک بندے کو بتایا کہ میں نے ایک عورت کو دیکھا تھا اور پھر وہ غائب ہو گئی تو اس نے جواب دیا:
 ”جناب وہ عورت نہیں چڑیل تھی۔کیا آپ نہیں جانتے کہ وہ ان کا علاقہ ہے اور ہم مغرب کے بعد وہاں کا رخ نہیں کرتے“
مجھے اس وقت اس تہذیب کا پاکستانی شمالی علاقہ کے اتناقریب ہونے کا احساس ہوا۔لوگ بہت سکون سے بتاتے ہیں کہ آپ نے ان خوبصورت مناظر کی وسعت اور شدت دونوں دیکھی ہیں اور تو اور یہ چترال اور بروغلی کے درمیان اکلوتی انسانی آبادی ہے،تو اس طرح کی چیزوں کی موجودگی آپ کے لئے حیرانگی کی بات نہیں ہونی چاہئے۔ مستونگ سے بروغلی تک اسی کلو میٹر کا سفر طے کرنے میں ہمیں تینتیس گھنٹے لگے،جو کہ ہم سوچ رہے تھے کہ ہم پانچ گھنٹوں میں کر لیں گے۔
٭   ہم پاکستان میں سیاحت کو فروغ دینے کے لئے اپنا رول کس طرح ادا کر سکتے ہیں؟
سب سے پہلے تو میں مقامی اعتبار سے سیاحت کے متعلق جو غلط فہمی ہے اس کا ذکر کرنا چاہوں گا۔بہت سے پاکستانی یہ سوچتے ہیں کہ سیاحت کا بیڑہ صرف غیر ملکیوں کے سر ہی ہے،جبکہ وہ بہت معمولی سا حصہ ہیں۔پاکستان کی آبادی ایک سو اسی ملین لوگوں پر محیط ہے اور اس میں سے اگر دس ملین سالانہ ہی شمالی علاقہ جات کی سیاحت شروع کر دیں تو ہمیں اس سوال کا جواب مل جاتا ہے۔ ہمیں خود ہی اس کی شروعات کرنا ہیں،اس کا یہ مطلب ہر گِز نہیں کہ سیاحت کے فروغ کے لئے لوگوں کو دور دراز علاقوں پر جاناہے۔شمالی علاقہ جات آبادی سے بھرے ہوئے ہیں،وہا ں پر اچھے ہوٹلز اور ضرورت کی اشیاء با آسانی دستیاب ہیں۔ آپ میرا یقین کریں کہ خاموشی اور مایوسی سے بچنے کا یہ سستا ترین طریقہ ہے،میرے پورے سفر میں تقریباً چودہ ہزار پیٹرول پر خرچ ہوتا ہے اور اس سے کچھ زائد رہائش وغیرہ پر۔یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ ہم اپنے قومی اثاثے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے اور اس کے فروغ اور بہتری کے لئے بہت کم کوشش کرتے ہیں۔میں نے چند ہفتوں پہلے ہی ہنزہ میں بہت سے چائنیز،جاپانی،ملائشین اور جرمن سیاح دیکھے اور وہ وہاں اپنی زندگی کا بہترین وقت گزار رہے تھے۔لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر غیر ملکی بڑے شہروں میں نہیں آتے تو اس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں سیاحت ہی نہیں ہے،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ غیر ملکی بڑے شہروں سے اجتناب کرتے ہیں۔
٭   کیا آپ تیز رفتاری کے شوقین ہیں؟یا پھر آپ اپنی بائیک پر مناسب رفتار رکھنے کے قائل ہیں؟
مجھے لگتا ہے کہ میری عمر کے لوگ تیز رفتاری یا ڈرفٹنگ کر کے بلا وجہ کے رِسک لینا پسند نہیں کرتے۔اورآپ کے سوال کا جواب بھی یہی ہے کہ ’میں تیز رفتاری کو پسند نہیں کرتا‘۔میں اپنے بائیکرزگروپ کا سب سے کم عمر ممبر ہوں اور ہم عام طور پر ایک دوسرے سے پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر سفر کرتے ہیں اور تیز رفتاری سے اجتناب کرتے ہیں خواہ سڑک خالی ہی کیوں نہ ہو،اور ہماری بائیکس بھی اس قسم کی ہیں جو کہ ہوا کے دباؤ سے نمٹنے میں دِقت رکھتی ہیں ویسے بھی ہم سفر کا اصل مزہ لینا چاہتے ہیں۔
٭    کیا آپ ہمیں اپنے گروپ کے متعلق کچھ بتائیں گے؟
جیسے کہ میں پہلے بھی بتاچکا ہوں،کہ میں اپنے گروپ کا سب سے کم عمر فرد ہوں باقی سب افراد کی عمریں پچاس سا ل سے زائد ہیں ان میں سے کچھ کا تعلق ملٹری سے ہے،کچھ آرکیٹکٹ، کچھ کاروباری حضرات ہیں اور کچھ مختلف ملٹی نیشنل کمپنیوں جیسا کہ نیسلے وغیرہ میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔تو آپ خود اندازہ لگا لیں،کہ تیز رفتاری سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ ہمارے گروپ کا مقصد ہے ”باہر کسی پرفزا مقام پر جا کر خوبصورتی سے لطف اندوز ہوا جائے نا کہ عوام سے بھری سڑکوں پر آوارہ گردی کی جائے جیسا کہ کچھ نوجوان کرتے ہیں“۔توکیمپنگ اور ایسی دوسری چیزوں سے لطف اندوز ہونے کے لئے آپ میں سفر کرنے کا جنون ہونا چاہئے اور سب سے ضروری یہ کہ مختلف اور مشکل قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے ٹھہراؤبھی۔
٭    جیسا کہ آپ سفرکرنے اور خوبصورت مناظر دیکھنے کا جنون رکھتے ہیں،تو موٹر سائیکل کے خراب ہونے پر آپ کیا کرتے ہیں؟
میں اس پر کچھ بولنے سے پہلے آ پ کو یہ بتا دوں کہ میں کوئی ٹیکنکل انسان نہیں ہوں،اور نہ ہی یہ میرا کام ہے۔مجھے تو بعض اوقات کمپیوٹر کی بھی سمجھ نہیں آتی،پھر کوئی مجھ سے ایسی امید کیسے کر سکتا ہے کہ میں ایسی بائیک جو کہ میرے خیالات سے بالاتر ہے کو ٹھیک کروں۔یہ بائیکس اچانک خراب نہیں ہوتیں،اور ہم ایسی خوبصورت آرٹ کا نمونہ مشینیں رکھنے پر اچھا محصوص کرتے ہیں۔ کسی بھی سفر پر روانگی سے پہلے ہم اپنی تسلی کرتے ہیں۔پھر بھی، اگر یہ خراب ہوجائیں ماسکنگ ٹیپ سے اکثر حل نکل آتا ہے اور اگر اس سے بھی کام نہ چلے تو ٹرک ہمیشہ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں،اس پر بائیک رکھ کر قریبی آبادی کا رخ کیا جاتا ہے تا کہ سب ایک ساتھ یکجا ہوں یہ سوچنے کے لئے کہ اگلا مرحلہ کیا ہونا
چاہئے
Exit mobile version