رینو لَوجی – پاکستان کے لیے موزوں MPVs میں سے ایک!
پاک ویلز بلاگ کے باقاعدہ قارئین اور گاڑیوں کے شعبے پر نظر رکھنے والے شوقین افراد بخوبی جانتے ہوں گے کہ گاڑیاں تیار کرنے والا ادارہ رینو (رینالٹ) پاکستان میں کارخانہ لگانے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔اگر آپ اس حوالے سے باخبر نہیں تو بتاتا چلوں کہ فرانسیسی ادارے نے سرمایہ کاری بورڈ کو حال ہی میں ایک خط ارسال کیا ہے۔ اس خط میں کہا گیا ہے کہ رینو پاکستان میں ڈسٹر اور کوئید متعارف کروانے کا ارادہ رکھتا ہے نیز سال 2018 تک گاڑیوں کا کارخانہ بھی لگانا چاہتا ہے۔ رینو نے ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے گندھارا گروپ سے بھی شراکت داری کی ہے۔ گوکہ فی الحال رینو ڈسٹر اور کوئید پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہے لیکن میری رائے میں ایک اور گاڑی ایسی ہے کہ پاکستانی مارکیٹ کے لیے انتہائی موزوں رہے گی۔
اس وقت پاکستان میں گاڑیوں کا شعبہ تغیر کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ بہت سے ادارے پاکستان میں بگ-تھری کی اجارہ داری ختم کرنے کا تہیہ کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں کراس اُووَر طرز کی گاڑیوں کی مقبولیت بھی بڑھ رہی ہے۔ ہونڈا وزل سے شروع ہونے والے اس رجحان میں اضافے کو دیکھتے ہوئے اب دیگر کار ساز ادارے بھی عنقریب میدان میں اتر رہے ہیں جن میں BMW X1، آوڈی Q2، سوزوکی ویتارا اور رینو ڈسٹر بھی شامل ہیں۔ ان کراس اوور کی کامیابی کا ایک راز یہ ہے کہ خریدارن کو SUV طرز کی خصوصیات سیڈان گاڑی کی قیمت میں مل جاتی ہیں۔ لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ تمام ہی کار ساز اداروں نے MPVs کو نظر انداز کیا ہوا ہے باوجودیکہ اس طرز کی گاڑیاں ابھرتی ہوئی مارکیٹوں میں خاصی مقبولیت حاصل کرچکی ہیں۔ پاکستان میں صرف تین ہی گاڑیاں MPVs میں شمار کی جاتی ہیں جن میں سوزوکی APV، ٹویوٹا ایونزا کے علاوہ FAW سائیریس شامل ہیں۔ تینوں مذکورہ گاڑیاں تیار شدہ حالت میں بیرون ممالک سے درآمد کر کے فروخت کی جاتی ہیں اور یہی امر ان کی قیمت میں کئی گنا اضافے کا باعث بنتی ہے۔
پاکستان میں MPVs کے خلا کو پر کرنے کے لیے “رینو لوجی” موزوں کردار ادا کرسکتی ہے۔ بھارت میں رینو (رینالٹ) کے نام سے پیش کی جانے والی یہ گاڑی دولت مشترکہ کے ممالک میں ڈاشیا برانڈ کے تحت فروخت کی جاتی ہے۔ پڑوسی ملک میں رینو لوجی کی قیمت 7,59,000 روپے ہے جو 12 لاکھ پاکستانی روپے کے مساوی رقم بنتی ہے۔ بھارت میں یہ ٹویوٹا انوُوا کے علاوہ سوزوکی ارتیگا سے کم قیمت ہونے کے باعث ابتدا ہی سے مشہور رہی ہے۔ یاد رہے کہ بھارت میں لوجی کی قیمت کم ہونے کی بنیادی وجہ مقامی سطح پر تیاری ہے۔ اگر فرانسیسی ادارہ سرمایہ کاری بورڈ کو کی گئی درخواست کے مطابق پاکستان میں گاڑیوں کی تیاری شروع کرتا ہے تو صورتحال پڑوسی ملک سے زیادہ بہتر ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ پاکستان میں MPVs طرز کی گاڑیوں میں خلا موجود ہے۔
رینو لوجی سے متعلق مزید بات کریں تو اس کے ظاہری انداز سے متعلق مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کیوں کہ ہر فرد کی پسند اور ناپسند بالکل مختلف ہوتی ہے۔ البتہ ایک بات طے ہے کہ لوجی کا ڈیزائن روایتی گاڑیوں سے مختلف ہے اور یہی چیز اسے گاڑیوں کی بھیڑ میں الگ پہنچان دیتی ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان میں دستیاب تمام ہی MPVs کے مقابلے میں رینو لوجی کی پیمائش بہت بہتر ہے۔اور اگر آپ گاڑی کی تیسری صف میں بیٹھ کر سفر کا تجربہ کرچکے ہیں تو پھر بخوبی جانتے ہیں ہوں گے اضافی ویل بیس کتنا مفید ہوتا ہے۔رینو لاجی اور پاکستان میں دستیاب اس طرز کی دیگر گاڑیوں کا موازنہ ذیل میں ملاحظہ فرمائیں:
گاڑی کے دل یعنی انجن کی بات کریں تو بھارت میں رینو لوجی فی الوقت ڈیزل انجن کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے جبکہ آئندہ سال اس میں پیٹرول انجن کی شمولیت بھی متوقع ہے۔ البتہ دیگر ممالک میں 1200cc ٹربو چارجڈ اور 1600cc نیچرلی ایسپریٹڈ انجن کے ساتھ بھی پیش کی جاتی ہے۔
رینو اسکالا پاکستان کے لیے موزوں کیوں نہیں؟
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ فرانسیسی ادارے کو پاکستان میں رینو اسکالا بھی متعارف کروانی چاہیے جبکہ میرے خیال میں یہ عمل خودکشی کے مترادف ہوگا۔ اس پر اختلاف رکھنے کی بنیادی وجہ رینو اسکالا کی قیمت ہے جس میں پاکستانی خریداروں کو بہت سی من پسند گاڑیاں دستیاب ہیں۔ میری رائے میں مسابقت میں کمی سے رینو فائدہ اٹھا سکتا ہے لیکن اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ کوئید، ڈسٹر اور لوجی سمیت تمام ہی گاڑیوں کو مختلف زمروں میں رکھا جائے یا پھر ان کی قیمت پاکستان میں دستیاب دیگر حریف گاڑیوں سے کم رکھی جائے۔