سوزوکی مہران پچھلی کئی دہائیوں سے عام آدمی کی کار کے طور پر پاکستان کی آٹو انڈسٹری کی صف اول کی گاڑیوں میں رہی ہے۔ 1 ملین روپے سے کم میں مقامی طور پر اسیمبل ہونے والی واحد کار کی وجہ سے یہ آج تک بہت سے لوگوں کی پسندیدہ ہے۔ اور ظاہر ہے جب بجٹ گاڑی کی بات آتی ہے تو لوگ آرام اور سپیڈ جیسے دونوں فوائد حاصل کرنے کے لیے سوزوکی مہران اے کے اے باس کی طرف جاتے ہیں۔ یہاں ایک واقعہ کی دلچسپ ویڈیو پیش کی جا رہی ہے جو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ہے۔
یہاں مسئلہ دو طرفہ ہے:
اوور سپیڈنگ
گاڑی میں ناکافی حفاظتی انتظامات
سیٹ بیلٹ کو ممکنہ جان بچانے والا تصور نہ کرنا
تو اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ 130 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اوپر جانا ممکن ہے مگر مقامی کارساز ایسا کبھی تجویز نہیں کریں گے اور نہ ہی اسے ٹریفک پولیس برداشت کرے گی۔ مجھے حیرانی ہے کہ اگر قانون نافز کرنے والے مقامی طور پر تیار کی جانے والی تمام گاڑیوں میں سپیڈ لیمیٹر اسیمبلنگ کے دوران بنیادی حصہ کے طور پر لگا دیں تو ہمیں پاکستانی سڑکوں پر کم حادثات دیکھنے کو ملیں۔