معذرت! گاڑی کے “اسمگل شدہ” ٹائرز بھی دستیاب نہیں
وفاقی حکومت کی جانب سے بینک سے لین دین پر 0.6 فیصد ٹیکس نافذ کرنے کی خبر اب کافی پرانی ہوچکی لیکن مختلف کاروباروں پر اس کے اثرات آہستہ آہستہ ظاہر ہو رہے ہیں۔ جب وفاقی بجٹ برائے 2015-16 میں مذکورہ ٹیکس سے متعلق تجاویز پیش کی گئیں تو مصنف کراچی میں تھا ۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت مختلف کاروباری انجمنوں کی طرف سے اس ٹیکس کے خلاف احتجاجی ہڑتال کا اعلان بھی کیا تھا۔قصہ مختصر کہ بعد ازاں حکومت اور کاروباری حضرات کے درمیان مذاکرات ہوئے اور دونوں فریق 0.3 فیصد ٹیکس کے ‘درمیانی راستے’ پر متفق ہوگئے۔
یہ تمام باتیں مجھے ایسے یاد آئیں کہ پچھلے دونوں اپنے دوست کے ہمراہ گاڑی کی ویل الائنمنٹ کروانے گیا۔ راولپنڈی میں رہتے ہوئے میں اور میرا دوست طویل عرصے سے اسی ٹائر کی دکان سے کام کرواتے ہیں۔ گوکہ اس دکان پر الائنمنٹ کا کافی پرانا نظام ہے لیکن اس مشین کو چلانے والا شخص اپنے کام میں ‘استاد’ ہے۔ اس کی مہارت دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے اس کی اپنے پیشے سے وابستگی بہت پرانی ہے۔ استاد کی دیگر خصوصیات میں تعلیم یافتہ اور باتونی ہونا بھی شامل ہے۔ غرض یہ کہ وہ اپنے کام کو بخوبی جانتا اور اس کا مکمل حق ادا کرنا جانتا ہے۔ مجھے اپنی پرانی سی گاڑی کے لیے نئے ٹائر خریدنے تھے تو سوچا کہ اس بارے میں استاد سے مشورہ کرلیا جائے۔ میں اپنے یوکاز ٹائر سے جان چھڑانا چاہتا تھا کیوں کہ وہ بہت سخت ہوچکے تھے۔ اپنی گاڑی کے لیے بہتر اور نرم ٹائر سے متعلق دریافت کرنے پر استاد نے نفی میں سر ہلایا۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ “سر ٹائر کا نہ پوچھیں۔ تازہ مال آ ہی نہیں رہا اور پرانے مال کی چور بازار (بلیک مارکیٹ) میں قیمت چڑھی ہوئی ہے، لیکن ملتا پھر بھی نہیں ہے۔”
استاد نے کہا کہ گاڑی کے ٹائر میں سرمایہ لگانے والے افراد اب بیرون ملک سے ٹائر منگوانے پر کم پیسہ لگا رہے ہیں۔ اس کے بقول انہیں اس کاروبارسے زیادہ منافع نہیں ہورہا اس لیے وہ کاروباری پیچیدگیوں میں پڑنے سے بچ رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ بینک سے لین دین پر لگنے والا اضافی ٹیکس بھی ہے۔ پاکستانی سرمایہ کار پہلے بینک سے پیسے نکلواتا ہے، پھر اسے کسی اور کرنسی مثلاً ڈالرز میں تبدیل کرواتا ہے اور پھر ٹائر فراہم کرنے والے فرد یا ادارے کے اکاؤنٹ میں جمع کرواتا ہے۔ تمام مراحل میں ٹیکس کی مد میں پیسوں کی کٹوتی ہوتی رہتی ہے۔ اب ان معاملات سے بچنے کے لیے لوگ دوسرے کاروبار کر رہے ہیں اور جو ابھی تک ٹائر درآمد کرنے کا کام کر رہے ہیں وہ فی ٹائر قیمت بڑھا کر صارفین کی جیبوں سے وصول کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں کہ تمام سرمایہ کار ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کرواتے لیکن دیگر شعبوں کی طرح اس میں بھی ‘ٹیکس چور’ تو بہرحال موجود ہیں۔
گاڑیوں کے کاروبار سے وابستہ میرے ایک دوست نے بتایا کہ سرمایہ کار جب بھی کسی چیز مثلاً ٹائر یا برقی آلات کا کنٹینر بیرون ملک سے منگواتے ہیں تو وہ پاکستان آنے سے پہلے ہی فروخت ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک صاحب نے برائیڈجسٹون ٹائرز کا کنٹینر منگوایا جس پر 40 لاکھ روپے لاگت آئی۔کنٹینر پاکستان پہنچنے سے پہلے ہی دوسرے سرمایہ کار نے ان صاحب سے 45 لاکھ روپے میں پورا کنٹینر خرید لیا اور پھر اسے تیسرے شخص کو فروخت کردیا۔ یہ سلسلہ تین چار شخصیات یا اداروں تک چلا جاتا ہے یوں مارکیٹ تک پہنچتے پہنچتے اس کی قیمت میں اضافہ بھی ہوجاتا ہے۔
مارکیٹ میں ٹائرز کی عدم دستیابی کا معاملہ صرف درآمد شدہ برانڈز کے ساتھ ہی نہیں بلکہ غیر قانونی طور پر پاکستان لائے جانے والے ٹائرز کی بھی شدید قلت ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد پر نگرانی سخت کردی گئی ہے اور غیر قانونی نقل و حمل پہلے کے مقابلے میں اب بہت مشکل ہوچکی ہے۔ لہٰذا اب یہ بھی ممکن نہیں کہ کٹے پھٹے اسمگل شدہ ٹائر ہی استعمال کر کے دل کو خوش کرلیا جائے۔
اس وقت اگر آپ نئے ٹائر لینا چاہتے ہیں تو جنرل ٹائرز بہترین انتخاب ثابت ہوسکتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ہم جنرل کے معیار پر کافی سوالات اٹھاتے رہے ہیں لیکن موجودہ صورتحال میں یہ سب سے بہتر ہیں۔ کوئی سال بھر پہلے راولپنڈی کے دو ٹائرز فروشوں نے بتایا تھا کہ جنرل ٹائر قانونی اور غیر قانونی دونوں طریقوں سے بیرون ملک بھیجے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل ٹائر تیار ہونے والی مصنوعات میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔ جنرل ٹائر کا موجودہ پلانٹ مختلف اقسام کے 31 لاکھ ٹائر تیار کرتا ہے. آئندہ سالوں میں جنرل ٹائر اینڈ ربڑ کمپنی پاکستان میں 1.2 ارب روپے کی سرمایہ کاری کرے گی جس کے بعد ٹائروں ی تیاری میں 25 فیصد اضافے کا امکان ہے۔