استعمال شدہ سوزوکی بلینو 2001 کا تفصیلی معائنہ

2 690

پرانی اور استعمال شدہ گاڑیاں خریدنے والے بہت سے لوگ اکثر تذبذب کا شکار رہتے ہیں کیوں کہ نئی گاڑیوں کے برعکس استعمال شدہ گاڑیوں کی ایک طویل فہرست میں سے اپنے لیے بہترین گاڑی منتخب کرنا بہرحال ایک مشکل ہے۔ اسی لیے ہم نے پاک ویلز بلاگ پر ایک نیا سلسلہ شروع کرنے کا سوچا جس میں ہم آپ کو پاکستان میں دستیاب پرانی گاڑیوں کا تفصیلی معائنہ کر کے اپنے قارئین تک پہنچائیں گے۔ ہمیں امید ہے کہ آپ کو یہ سلسلہ ضروری پسند آئے گا۔
پاک ویلز بلاگ پر اس منفرد سلسلے کی شروعات ہم سوزوکی بلینو 2001 سے کر رہے ہیں۔ اس گاڑی نے اپنے وقتوں میں پاکستانی مارکیٹ میں راج کیا اور یہ آج بھی ہمیں اچھی خاصی تعداد میں سڑکوں پر گھومتی پھرتی نظر آتی ہے۔

سوزوکی بلینو کی مختصر تاریخ

بلینو عالمی سطح پر 1995 جبکہ پاکستان میں پہلی بار 1998-99 میں پیش کی گئی۔ یہ سوزوکی کی مشہور ترین گاڑیوں میں سے ایک ‘مرگلہ’ کے بعد سامنے آئی۔ یہ سوزوکی کی پہلی مختصر سیڈان تھی جسے پاکستان میں متعارف کروایا گیا۔ اس کا انداز سوزوکی کی روایتی گاڑیوں سے کچھ مختلف تھا جسے بعد ازاں2002-03 میں مزید بہتر کیا گیا۔ تاہم صرف تین سال بعد یعنی 2005 میں سوزوکی لیانا کی پیش کش کے ساتھ سوزوکی بلینو کو بند کردیا گیا۔

سوزوکی بلینو پہلی بار (1998 تا 2002) ان نسخوں (variants)کے ساتھ پیش کی گئی تھی:
جی ایل (GL)
جی ایل آئی (GLi)
جی ایل آئی پی (GLiP)
جی ایکس آئی (GXi)
جی ٹی آئی 1.6 (GTi)

اس سوزوکی بلینو کو 1300 سی سی اور جی ٹی آئی میں 1600 سی سی پیٹرول انجن اور مینوئل ٹرانسمیشن کے ساتھ پیش کیا گیا تھا۔ مجموعی طور پر 1300 سی سی جبکہ جی ٹی آئی کو برق رفتاری کے شوقین افراد میں کافی پذیرائی حاصل ہوئی۔

2002 میں پیش کی جانے والی سوزوکی بلینو کا انداز بہت مختلف بنایا گیا۔ اگلے حصے میں لائٹس، بونٹس، بمپرز، فینڈرز اور گِرل کو مزید دیدہ زیب بنایا گیا۔ پہلے والی بلینو کے مقابلہ میں اس کا نیا انداز بہت ہموار اور قدرے لمبا محسوس ہوتا ہے۔ اسے تین نسخوں میں پیش کیا گیا:
جے ایکس آر (JXR)
جے ایکس ایل (JXL)
اسپورٹ (Sport)

یہ تمام نسخے صرف 1300 سی سی پیٹرول انجن کے ساتھ پیش کیے گئے اور جذباتی افراد کی من پسند 1600 سی سی انجن والی گاڑی کی تیاری بند کردی گئی۔ بلینو اسپورٹ کے پہیے دیگر نسخوں کے مقابلے میں نسبتاً بڑے تھے۔ اس کے علاوہ پاور انٹینا، پاور ونڈوز اور رئیر اسپائلر بھی شامل کیا گیا تھا۔اگر یہ کہا جائے کہ انداز کے علاوہ ان نسخوں میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں کی گئی تو غلط نہ ہوگا۔ بعد ازاں پاکستان میں سی این جی کی بڑھتی ہوئی مشہوری کے بعد پاک سوزوکی نے بھی بلینو میں سی این جی کٹ لگا کر فروخت کرنا شروع کردی۔

سوزوکی بلینو اپنے وقت کی محفوظ ترین گاڑی سمجھے جاتی تھی۔ اس میں پہلی بات اموبلائزر لگایا گیا جس کے بعد بلینو کو چلانے کے لیے صرف پاک سوزوکی کی فراہم کردہ چابی ہی سے اسٹارٹ کیا جاسکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا شمار سب سے کم چوری ہونے والی گاڑیوں میں ہوتا تھا۔

گاڑی چلانے کا تجربہ

سوزوکی بلینو کی عملی آزمائش کے لیے ہمیں 2001 جی ٹی آئی نسخہ دستیاب ہوا۔ اس سے پہلے کہ میں تفصیلی جائزے کی طرف جاؤں پہلے اس گاڑی سے متعلق آپ کا بتاتا چلوں۔ یہ گاڑی 2005 میں خریدی گئی تھی۔ یہ اب تک 2 لاکھ 22 ہزار کلومیٹر چلائی جا چکی ہے۔ گاڑی کے مالک کا کہنا ہے کہ یہ گاڑی گھریلو استعمال میں آتی ہے اس لیے صرف ایک بار ہی تھوڑا بہت کام کروانا پڑا تھا۔ جب یہ گاڑی خریدی گئی تھی تب اس میں سی این جی لگی ہوئی تھی جسے بعد ازاں نکال دیا گیا۔

چونکہ یہ جی ٹی آئی ہے اس لیے 1600 پیٹرول انجن کے ساتھ 5 اسپیڈ مینوئل ٹرانسمیشن کی حامل تھی۔ اسے خریدنے کی وجہ بتاتے ہوئے بلینو کے مالک نے کہا کہ انہیں اپنے بجٹ میں اسے سے زیادہ بہتر گاڑی نہیں ملی لہٰذا انہوں نے اپنا بجٹ دیکھتے ہوئے اس میں 1500 سی سی پیٹرول انجن اور 5 اسپیڈآٹومیٹک ٹرانسمیشن لگوا لی۔ ٹرانسمیشن برقی طور پر چلتی ہے جس سے آپ ‘پاور’ یا ‘سنو موڈ’ کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ سنو موڈ میں گاڑی دوسرے گیئر پر چلتی ہے جس سے برف باری کے موسم میں ڈرائیور کی گاڑی پر گرفت رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ اس گاڑی میں یہ تبدیلیاں تقریباً تین سال پہلے کی گئی تھیں اور بقول صاحبِ کار سب کچھ بہترین کم کر رہا ہے۔ گاڑی کی جسامت بھی عام سی ہے جو جاپان سے درآمد شدہ بلینو میں نظرآتی ہے۔ لیکن چھت پر ایک کھڑی چند سال پہلے لگوائی گئی تھی۔ اس کا حفاظتی نظام بھی عام سا ہے۔

میں نے اب تک 2 سوزوکی بلینو چلائی ہیں۔ ایک بلینو اسپورٹ 2007 اور دوسری یہ والی جس کے متعلق میں آپ کو بتانے جا رہا ہوں۔ مجھے بلینو 2007 سے متعلق زیادہ تو یاد نہیں اس لیےذکر کرنے کے بجائے 2001 کی بلینو پر زیادہ بات کروں گا۔ میں نے اسے کافی طویل فاصلے تک چلایا اور گاڑی کے مالک کے ساتھ اسے موٹر وے بھی لے کر گیا اس لیے یہ کہہ سکتا ہوں کہ مجھے بلینو کی کارکردگی سے متعلق بہت اچھا تجربہ ہوچکا ہے۔

گاڑی کے اندر بیٹھ کرمحسوس ہوتا ہے کہ بہت سادہ انداز میں بنائی گئی ہے۔اس کے ڈیش بورڈ میں ایل سی ڈی اور ڈی وی ڈی چلانے کے لیے کوئی سہولت موجود نہیں۔نشستیں بھی بہت مناسب انداز میں بنائی گئی ہیں۔نشست پر بیٹھ کر مجھےدیگر پرانی گاڑیوں سے اچھا اور بہتر لگا۔

شہر میں گاڑی چلانے کا تجربہ

پہلے سوزوکی بلینو کی شہر کی عام سڑکوں پر کارکردگی سے متعلق بات کرتے ہیں۔ کیوں کہ یہ گاڑی آٹومیٹک ہے اس لیے چلانے کا تجربہ اچھا رہا۔ مجھے پتہ ہے کہ بہت سے قارئین اگر اس جیسی آٹومیٹک بلینو تلاش کرنے نکلیں تو شاید انہیں یہ سہولت نہ مل سکے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ مینوئل میں بھی یہ گاڑی چلانے کے لیے بہت اچھی رہے گی۔

اگر ایک لفظ میں مجھے اپنا مکمل تجربہ بیان کرنے کو کہا جائے تو میں کہوں گا کہ بلینو بہت آسان ہے۔ وزن میں ہلکی ہے اور انجن بھی بہت اچھا ہے اس لیے آپ کو زیادہ زور لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔مجھے محسوس ہوا کہ ٹریفک والے روڈ پربھی اگر اسے 80 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلایا جائے تو مناسب رہتا ہے۔ اس کا اسٹیئرنگ کافی اچھا ہے لیکن مجھے کچھ سست معلوم ہوا۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ایک ریسنگ کار نہیں بلکہ عام استعمال کی گاڑی ہے۔ اس کے علاوہ بلینو کا سفر کچھ زیادہ ہچکولوں والا لگا ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ صاحبِ کار نے بعد ازاں شاک آبزربر (shock absorber) لگوائے تھے۔ ایندھن استعمال کی اوسط شہر یں 11 سے 13 کلومیٹر فی لیٹر جبکہ موٹر وے پر 15 سے 16 کلومیٹر فی لیٹر ہوسکتی ہے۔

گاڑی کا مجموعی احساس

یہ گاڑی شروع سے اب تک 2 لاکھ 22 ہزار کلومیٹر چلائی جا چکی ہے لیکن اس کے باوجود تمام پرزے بشمول چیسز بہت اچھی حالت میں تھے۔ میرے خیال سے اسے سوزوکی انجینئرنگ کی عمدہ مثال کہا جائے تو بالکل ٹھیک ہوگا۔ گاڑی چلتے ہوئے یا کھڈوں سے گزرتے ہوئے ہلنے جلنے کا شور پیدا نہیں کرتی جو عام طور پر پرانی گاڑیوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہوا کرتا ہے۔ لیکن یہ جان کر مجھے بھی حیرت ہوئی باوجودیکہ اس کا اوڈومیٹر اتنی زیادہ مسافت بتا رہا ہے۔ سب سے اچھی چیز مجھے چیسز کے خراب نہ ہونے والی لگی جسے میں بہرحال ایک انتہائی اہم اور مثبت نکتہ قرار دوں گا۔ بہرحال، یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ گاڑی کی مجموعی صورتحال اسی وقت بہتر رہتی ہے جب اسے اچھے طریقے سےرکھا اور چلایا جائے لیکن اس کے لیے بنیادی اچھی ہونا بھی تو لازمی ہے۔

شہر میں گاڑی چلانے کے دوران بریکس کا استعمال بھی بہت سہل معلوم ہوا۔ گو کہ میں نے بریکس لگانے کے لیے گاڑی کو مشکل میں نہین ڈالا لیکن میرے ساتھ موجود گاڑی کے مالک نے بتایا کہ وہ سوزوکی بلینو کوکئی بار شمالی علاقوں میں لے جا چکا ہے اور وہاں اسے کبھی بھی اس حوالے سے مشکل پیش نہیں آئی۔

موٹر وے پر بلینو چلانے کا تجربہ

جیسا میں نے پہلے ذکر کیا کہ مجھے کچھ دیر کے لیے سوزوکی بلینو موٹروے پر چلانے کا موقع ملا یا اسے یوں کہنا چاہوں گا کہ گاڑی اڑانے کا موقع ملا۔ صرف اسپیڈ بتانے کی دیر کہ گاڑی ہواؤں سے باتیں کرنے لگی۔ البتہ ایک چیز جو مجھے محسوس ہوئی وہ یہ کہ 150 کلومیٹر فی گھنٹی کی رفتار پر کھڑکیاں کھڑکنے لگیں جو میرے اندازےکے برخلاف تھا۔ بہرحال، انجن کی حالت تمام سفر کے دوران بہتر رہی۔ کچھ موڑ کاٹتے ہوئے مجھے کچھ مشکل پیش آئی لیکن میں اس کا قصوروار خود کو قرار دوں گا نہ کہ گاڑی کو۔ کیوں کہ میں ایک گھریلو گاڑی سے کچھ زیادہ رفتار سے چلنے کی توقع کر رہا تھا۔

مجھے اس گاڑی میں یہ چیزیں پسند آئیں:
چلانے میں آسان
تیز رفتار
بیٹھنے کی مناسب جگہ
گاڑی کے پرزوں کی دستیابی

مجھے اس گاڑی میں یہ چیزیں پسند نہیں آئیں:
پچھلی طرف کی لائٹس کم نظر آتی ہیں
کچھ ہل جل والی سواری ہے
اے سی کا نظام بہتر کرنے کی ضرورت
150 کلومیٹر فی گھنٹہ رفتار پر کھڑکیوں کا بجنا
اسٹیئرنگ کی سستی

سوزوکی بلینو کے لیے میرا تجزیہ

  • کارکردگی: 4.5/5
  • انداز: 3.5/5
  • آرامدہ: 3/5
  • استعمال: 4/5
  • ڈرائیو: 4.5/5
  • مجموعی: 4/5

استعمال شدہ سوزوکی بلینو کی قیمت

میرے اندازے کے مطابق استعمال شدہ سوزوکی بلینو 5 سے 7 لاکھ روپے تک مل جانی چاہیے۔ اس کا زیادہ تر انحصار مجموعی حالت اور انجن کی قابلیت پر ہے۔ بلینو 1300 کے مقابلے میں بلینو 1600 زیادہ مہنگی ہوگی۔

یکساں قیمت پر دستیاب دیگر گاڑیاں

اگر 5 سے 7 لاکھ روپے میں دستیاب دوسری گاڑیوں پر ایک نظر ڈالیں تو آپ کو ہونڈا سِوک (1996 – 2000) چھٹی جنریشن مل جائے گی۔ انجن اور سائز کے اعتبار سے متبادل دیکھنا چاہیں تو ہونڈا سِٹی بھی دستیاب ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ 90 کی دہائی کے آخیر میں آنے والی ٹویوٹا کرولا بھی اسی قیمت پر مل جانے کے امکانات ہیں۔ دیوان مٹسوبشی لانسر سے متعلق بھی سوچا جاسکتا ہے لیکن اس کے پرزے آسانی سے میسر نہیں آتے۔

لب لباب یہ ہے کہ اگر آپ استعمال شدہ سستی گاڑی لینا چاہیں تو سوزوکی بلینو کے بارے میں ضرور غور کریں۔ یہ بات درست ہے کہ مارکیٹ میں دستیاب بلینو اس گاڑی سے بہت مختلف ہوگی جس کا میں نے تجربہ اور تبصرہ لکھا لیکن یہ سب یہاں لکھنے کا مقصد ان پہلؤں پر روشنی ڈالنی تھی جس پر ہماری نظر نہیں جاتی۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کو دستیاب گاڑی رنگ و صورت میں مختلف ہو لیکن انجن اور دیگر خصوصیات تو ایک ہی جیسی ہوں گی۔ تو اگر آپ بلینو لینے کا فیصلہ کر رہے ہیں تو اس پھر اس کا خیال بھی رکھیں تاکہ اس کی بہترین بنیاد کو ٹھیس نہ پہنچے اور یہ لمبے عرصے تک آپ کا ساتھ دیتی رہے۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.