کیا موٹرز کی پاکستان آمد: کس کا فائدہ کس کا نقصان؟
جنوبی کوریا سے تعلق رکھنے والے کار ساز ادارے کِیا موٹرز کی پہلی گاڑی کیا پرائیڈ کو نیا دور موٹرز لمیٹڈ (NDML) نے 1994-95 میں متعارف کروایا۔ اس سے قبل کیا موٹرز کی یہ ہیچ بیک نہ صرف اپنے ملک جنوبی کوریا بلکہ جاپان، امریکا، برطانیہ اور جرمنی کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی زبردست مقبولیت حاصل کرچکی تھی۔ پاکستان میں بھی اس ہیچ بیک نے بہت کم عرصے میں ہزاروں خریداروں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا حتی کہ ملک بھر میں اس کی پیشگی بُکنگ کی جانے لگی۔
پاکستان میں کیا پرائیڈ کو 4-اسٹروک 1000cc گیسولین اسپارک-اگنیشن انجن اور 5-اسپیڈ مینوئل گیئر باکس کے ساتھ پیش کیا گیا۔ گاڑیاں تیار کرنے والے ادارے کے مطابق اس کی زیادہ سے زیادہ رفتار 154 کلومیٹر فی گھنٹہ تک پہنچ سکتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق نیا دور موٹرز کو کیا پرائیڈ کے 16 ہزار آرڈرز موصول ہوئے تاہم 90 فیصد سے زائد خریداروں کو گاڑی فراہم ہی نہیں کی گئی۔ پاکستان میں قانونی سقم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے NDML نے وصول کی گئی رقم کو بیرون ملک منتقل کردیا اور پھر پاکستان میں دیوالیہ ہونے کا دعوی دائر کردیا۔ بڑے پیمانے پر عوام کو دھوکا دینے والے ادارے کو تقریباً 75 کروڑ روپے وصول ہوئے۔ گو کہ اس حوالے سے NDML پر کئی مقدمات بنائے گئے تاہم اب تک اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔
پاکستان میں کِیا موٹرز کی شدید بدنامی اور انتہائی خراب تجربے کے باوجود دیوان فاروق موٹرز کمپنی لمیٹڈ (DFML) نے کیا موٹرز کے ساتھ ایک مرتبہ پھر پاکستان میں گاڑیوں کی تیاری شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ ابتدا میں 1300cc انجن کی حامل کِیا کلاسک کو متعارف کروایا گیا۔ یاد رہے کہ کیا کلاسک کو ہیچ بیک کیا پرائیڈ ہی کی سیڈان طرز قرار دیا جاتا ہے۔ اس زمانے میں کیا کلاسک کے لیے زبردست اشتہاری مہم چلائی گئی، اقساط پر گاڑی کے حصول کا موقع فراہم کیا گیا اور پھر دیگر نئی گاڑیاں بشمول کیا اسپورٹیج اور کیا اسپیکٹرا بھی متعارف کروائی گئیں۔ نئی حکمت عملی سے کیا موٹرز کو ایک مرتبہ پھر پاکستان میں معتبر ادارہ سمجھا جانے لگا۔ تاہم 2007 کے اواخر میں دیوان مشتاق گروپ (DMG) کو پاکستان کا سب سے بڑا نادہندہ قرار دے دیا گیا اور ان کے کارخانوں کو فوری طور پر بند کردیا گیا۔ اس صورتحال کا سب سے زیادہ فائدہ جاپانی کارساز اداروں پاک سوزوکی، ہونڈا اور ٹویوٹا انڈس موٹرز نے اٹھایا۔ ان تینوں اداروں نے پاکستان میں گاڑیوں کے شعبے پر اپنی اجارہ داری قائم کرلی جس کی جھلک آج بھی دیکھی جاسکتی ہے۔
آٹو پالیسی 2016 – ایک نئی دور کی شروعات
رواں سال تیار اور نافذ کی جانے والی آٹو پالیسی نے گاڑیوں کے شعبے میں نئے اداروں کی شمولیت کے راستے کھول دیئے۔ ایک طرف دیوان فاروق موٹرز ایک مرتبہ پھر ہیونڈائی موٹرز کے ساتھ کام شروع کرنے کا ارادہ ظاہر کرچکا ہے تو دوسری جانب جرمن ادارہ آوڈی اور فرانسیسی کمپنی رینالٹ (رینو) بھی مقامی مارکیٹ میں اترنے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔
قومی ذرائع ابلاغ پر گردش کرنے والی خبروں میں لکی سیمنٹ کمپنی لمیٹڈ (LCCL) کا نام بھی گاڑیوں کے شعبے میں شامل ہونے والے اداروں میں لیا جانے لگا ہے۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں رجسٹر شدہ لکی سیمنٹ پاکستان میں کیا موٹرز کے ساتھ کام شروع کرنے ارادہ رکھتی ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان میں کیا گاڑیوں کی تیاری کے لیے ایران میں موجود کیا موٹرز کے کارخانے سے ساز و سامان درآمد کیے جانے کی توقع ہے۔ پڑوسی ملک ایران میں ایٹلس خودرو کمپنی (AKC) کیا موٹرز کی نمائندگی کے ساتھ کام کرتی ہے۔
پاکستان میں کیا موٹرز کی پیش قدمی سے موجودہ کار ساز اداروں کو سخت مسابقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیا موٹرز کی بیشتر گاڑیاں جدید سہولیات بشمول ایئربیگز، الیکٹرانک اسٹیبلٹی کنٹرول (ESC)، وہیکل اسٹیبلٹی مینجمنٹ (VSM)، الیکٹرانک بریک –فورس ڈسٹری بیوشن سسٹم (EBD)، ریموٹ کنٹرول وغیرہ سے لیس ہیں جو فی الوقت پاکستان میں تیار کی جانے والی گاڑیوں میں دستیاب نہیں۔ اس کے علاوہ جنوبی کوریا کا ادارہ اپنی کم قیمت گاڑیوں میں متعدد خصوصیات بھی پیش کرتا رہا ہے جن میں عقبی کیمرہ، 6 زاویوں سے ڈرائیور کی نشست تبدیل کرنے، بلوٹوتھ سے منسلک کرنے، کلائمٹ کنٹرول اور ایکو موڈ قابل ذکر ہیں۔
ماہرین کے خیال میں کیا موٹرز کو گاڑیوں کی قیمتوں کے تعین میں بہت زیادہ احتیاط کرنا ہوگی نیز پاکستان میں ان گاڑیوں کے پرزوں کی آسان اور کم قیمت میں دستیابی کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔ علاوہ ازیں جنوبی کوریا کے ادارے کو بعد از استعمال فروخت کی سوچ کو مدنظر رکھتے ہوئے صارفین کی مانگ اور بعد از فروخت خدمات کی فراہمی بھی یقینی بنانا ہوگی۔
ذیل میں چند گاڑیوں کا تعارف پیش کر رہا ہوں جو کیا موٹرز پاکستان میں متعارف کرواسکتا ہے:
کیا پیکانتو – اگر پاکستان میں کیا موٹرز کی اس چھوٹی ہیچ بیک کو متعارف کروایا گیا تو یہ مقامی تیار شدہ چھوٹی گاڑیوں کے علاوہ درآمد شدہ جاپانی گاڑیوں کو بھی زبردست ٹکر دے سکتی ہے۔ اس کی آمد سے نہ صرف سوزوکی مہران بلکہ لیانا اور کلٹس کی فروخت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ چھوٹی گاڑیوں کے زمرے پر اجارہ داری کرنے والے پاک سوزوکی کو مقابلے میں رہنے کے لیے نئی اور پہلے سے بہتر معیار کی گاڑیاں پیش کرنا ہوں گی۔
کیا ریو – 1300cc انجن اور 6-اسپیڈ آٹو/مینوئل گیئر باکس کی حامل یہ گاڑی پاکستان میں ٹویوٹا انڈس موٹرز کی کرولا اور ہونڈا ایٹلس کی سٹی کا مقابلہ کرنے کی بھرپور اہلیت رکھتی ہے۔ چونکہ ٹویوٹا کرولا اور ہونڈا سٹی دونوں ہی پاکستان میں خاصی مقبول ہیں لہذا چھوٹی سائز کی اس سیڈان کو مارکیٹ میں جگہ بنانے کے لیے کم قیمت میں زیادہ سہولیات فراہم کرنا ہوں گی تاکہ جلد از جلد خریداروں کو متوجہ کیا جاسکے۔
کیا فورٹ – یہ پاکستان میں دستیاب ٹویوٹا آلٹِس، آلٹِس گرانڈے اور ہونڈا سِوک کی بہترین متبادل ثابت ہے۔ نہ صرف انداز بلکہ خصوصیات اور سہولیات کے اعتبار سے موازنہ کیا جائے تو یہ مذکورہ گاڑیوں سے بہتر قرار دی جاسکتی ہے۔ غرض یہ کہ کیا فورٹ اعلی طبقے میں مقبولیت حاصل کرنے کے تمام لوازمات سے لیس ہے۔
کیا اسپورٹیج – کیا موٹرز کی اسپورٹس یوٹیلٹی وہیکل (SUV) پاکستان میں درآمد شدہ ہونڈا وز، ٹویوٹا رش اور نسان جیوک کی جگہ لے سکتی ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے انڈس موٹرز اور ہونڈا ایٹلس کو مقامی سطح پر SUV کی تیاری شروع کرنا ہوگی ورنہ کیا اسپورٹیج انہیں بہت پیچھے چھوڑ دے گی۔
اگر میں نئی کار ساز اداروں کی آمد کو مختصر لفظوں میں بیان کروں تو وہ کچھ یوں ہوگا:
عوام کو پاکستان میں تیار شدہ نئے انداز، حفاظتی سہولیات اور کفایتی خصوصیات کی حامل گاڑیاں کم قیمت میں دستیاب ہوں گی۔ اس کے علاوہ مقامی سطح پر گاڑیوں کی تیاری اور سرمائے کی نقل و حمل میں اضافہ ہوگا جس سے ملک کی مجموعی معاشی صورتحال اور غیر ملکی کرنسی کے ذخائر پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔