نسان موٹرز: پاکستان میں ناکامی کی وجہ کیا ہے؟

گاڑیوں کے شعبے میں “نسان” ایک معتبر نام سمجھا جاتا ہے۔ بالخصوص بڑے ٹرک کی مارکیٹ میں نسان کو کئی ایک حریف کمپنیوں پر سبقت حاصل رہی ہے۔ دبئی میں تو نسان کی گاڑیاں خاص کر نسان پیٹرول (Nissan Patrol) کافی مقبول ہے۔ 1981 میں گندھارا نسان لمیٹڈ (GNL) نے پاکستان میں نسان گاڑیوں کی فروخت کے حقوق حاصل کیے۔ اس وقت یہ ایک نجی ادارے کے طور پر کام کر رہا تھا۔ بعد ازاں 1992 میں اسے پرائیوٹ کمپنی سے پبلک لمیٹڈ کمپنی میں تبدیل کردیا گیا۔

بہرحال، موجود صورتحال یہ ہے کہ نسان (Nissan) کی گاڑیاں شاذ و نادر ہی نظر آتی ہیں۔ دنیا بھر میں اپنا لوہا منوانے کے باوجود پاکستان میں نسان کی ناکامی ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہمارے یہاں بعد از استعمال اچھی قیمت پر گاڑی فروخت کرنے والی ذہنیت ہے۔ افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ ہمارے یہاں آدھے سے زیادہ خریدار وہی گاڑی منتخب کرتے ہیں جو بعد از استعمال اچھی قیمت پر فروخت ہونے کے لیے مشہور ہو۔ یہ ایک ایسی غلط فہمی ہے کہ جس کے خلاف کوئی بات سننے یا ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔

یہ بھی پڑھیں: کیا سوزوکی گاڑی فروخت کرنا واقعی آسان ہے؟

یہ باتیں میں خاص طور پر ان لوگوں کے لیے لکھ رہا ہوں جو چند سالوں بعد گاڑی بدلنے کے لیے پریشان ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جو ٹویوٹا کرولا کا نیا ماڈل آنے پر نئی گاڑی لینے کے لیے دوڑے چلے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ انہیں پیسے اڑانے یا نئی گاڑی لینے کا شوق ہے بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ ان کی گاڑی معیار میں اتنی کم تر تھی کہ وہ اب اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔ یہی حال ہونڈا کے صارفین کا ہے جو نئے ماڈل کے ایسے ہی منتظر رہتے ہیں جیسے کوئی معجزہ ہونے والا ہو۔ پھر جب یہ معجزہ رونما ہوتا ہے تو ٹین کا وہی ڈبہ نئے انداز اور نئی لائٹس کے ساتھ خریداروں کو تھما دیا جاتا ہے۔ کیا ہم اسی کے حقدار ہیں؟ کہتے ہیں طاقت کا سرچشمہ عوام ہوتی ہے لیکن ہم ہیں کہ کسی بھیڑ کی طرح جس نے جہاں ہانک دیا بس بغیر سوچے سمجھے چلے جارہے ہیں!

میرا ایک دوست شدت سے ہونڈا سٹی (Honda City) نئی جنریشن کا منتظر تھا۔ لیکن بدقسمتی سے ہونڈا ایٹلس نے سِٹی کی چھٹی جنریشن یہاں پیش ہی نہیں کی۔ شکر پاک ویلز نے نئی سِٹی کے منتظر ہونڈا کے شائقین کو قبل از وقت باخبر کردیا کہ مستقبل قریب میں کوئی نئی گاڑی یہاں نہیں آنے والی ہے۔ بصورت دیگر میرے دوست کی طرح ناجانے کتنے ہی لوگ اپنے 17 لاکھ روپے کے ساتھ ایک ایسی گاڑی کے انتظار میں بیٹھے رہتے جس کی اصل قیمت 10 لاکھ روپے بھی نہیں ہے۔ قصہ مختصر، میرا دوست ہونڈا کے اس فیصلے سے شدید مایوس ہوا اور اس نے ہونڈا سِٹی فروخت کر کے نسان بلوبرڈ خرید لی۔ یقین کریں، وہ اپنی پچھلی گاڑی کو خیرباد کہہ کر نسان کا انتخاب کرنے پر بہت خوش ہے۔

نسان بلوبرڈ میں 1500 سی سی انجن شامل ہے جو 1600 سی سی ٹویوٹا کرولا آلٹس اور 1500 سی سی ہونڈا سٹی اسپائر سے بہت بہتر ہے۔ گاڑی کا اندرونی حصہ کافی کشادہ اور پرسکون ہے۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس میں بہت سی حفاظتی سہولیات بھی موجود ہیں جن میں ایئربیگز بھی شامل ہیں۔ بھلا بتائیے کہ ہمارے یہاں کونسا مقامی کار ساز ادارہ یہ سب کچھ فراہم کر رہا ہے؟ مگر افسوس یہ ہے کہ نسان کی گاڑیاں لوگوں کی توجہ حاصل نہیں کرپاتیں اور یہی ان کی ناکامی کا سبب بنا ہے۔

حالیہ عرصے میں گاڑیوں کی فروخت بڑھ رہی ہے۔ آٹو پالیسی کے بعد نئے کار ساز اداروں کی آمد بھی متوقع ہے۔ مجھے پوری امید ہے کہ آج نہیں تو کل ہماری محدود سوچ ضرور تبدیل ہوگی اور ہم استعمال شدہ گاڑی کی اچھی قیمت حاصل کرنے والی سوچ سے باہر نکل آئیں گے۔ صرف یہاں تبصرہ کرنا کافی نہیں ہے بلکہ ہمیں ہر پلیٹ فارم پر ان کار ساز اداروں کو اپنا موقف بتانا ہوگا۔

Exit mobile version