کیا معاشی سست روی نئے اداروں کو متاثر کرےگی؟
آٹو پالیسی 2016-21ء پاکستان کی آٹو انڈسٹری میں ایک بڑی پیشرفت تھی کیونکہ اس نے سرمایہ کاری کے مواقع کی حوصلہ افزائی کی جس کے ساتھ متعدد نئے ادارے مارکیٹ میں داخل ہوئے، لیکن کیا یہ سرمایہ کاروں کو فائدہ پہنچائے گی؟ اگلے چند سالوں میں مقامی مارکیٹ میں بننے والے موجودہ یونٹس کے ساتھ ساتھ 3,00,000 یونٹس کی پیداوار کا امکان ہے۔ اس کا نتیجہ پرانے اور نئے اداروں کے درمیان مارکیٹ شیئر کی تقسیم کی صورت میں کیسا نکلے گا؟ کیا نئے ادارے مقامی صنعت کے تین بڑے جاپانی اداروں کی اجارہ داری توڑ پائیں گے؟ بلاشبہ مل کی موجودہ اقتصادی صورتحال سے بھی کئی سوالات ابھرتے ہیں۔
مسابقتی مارکیٹ اپروچ کو حقیقت کا روپ دینے کی کوشش میں یکدم 17 نئے اداروں کا آٹو انڈسٹری میں داخل ہونا کچھ زیادہ ہی ہے۔ یہ نئے اداروں کے لیے ایک بڑا کام ہوگا کہ وہ پرزوں کی لوکلائزیشن میں کامیابی حاصل کریں جو پاکستان کے آٹو سیکٹر کی ترقی کے لیے سب سے بڑی ضرورت ہے۔ زیادہ لوکلائزیشن زیادہ پیداواری حجم کی طلب کرتی ہے اور مارکیٹ شہر کا معمولی حصہ ہو تو ہدف حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہوگا۔ بالآحر یہ بڑے پیمانے پر ملازمتوں کے وعدوں کے بجائے ملازمتوں کے کم مواقع تخلیق کرتا ہے۔ مقامی سطح پر اسمبل ہونے والی گاڑیوں لوکلائزیشن کا عمل وقت لیتا ہے اور اس کا انحصار محض مسابقتی مارکیٹ میں صارفین کے ردعمل پر ہے۔ اس لیے مثبت لحاظ سے دیکھنے والے تمام نئے اداروں میں پرزوں کو لوکلائز کرنے کی خواہش بدستور ایک چیلنج ہے کیونکہ مقامی مارکیٹ میں پہلے کبھی کئی ماڈلز جاری کرنے کی ایسی کوششوں کا تجربہ نہیں تھا۔
ملک کی موجودہ معاشی صور حال میں ایک ممکنہ خریدار کی حیثیت سے کسی کو آنے والی گاڑیوں کا کم قیمت ہونے کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔ یہ صارفین کے لیے بلاشبہ مایوس کن ہے پھر بھی حوصلہ افزا ہے کہ کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ مقامی صنعت میں ابتدائی سطح کی گاڑیاں پہلی بار پرکشش خصوصیات سے لیس ہوں گی اور کہیں بہتر معیار کی ہوں گی۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے 2018ء میں 3,30,000 یونٹس، بشمول 70,000 کمپلیٹلی بلٹ یونٹس (CBUs) کی فروخت کا حجم ظاہر کرتا ہے کہ مزید بڑھنے کا بہت امکان موجود ہے۔ پاکستان کی آبادی 20 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے البتہ 1000 افراد پر فروخت ہونے والے یونٹس کا تناسب محض 1.65 ہے جو عالمی تناسب سے کہیں کم ہے جو 10 گنا زیادہ 12.8 یونٹس پر موجود ہے۔ آٹوموبائل انڈسٹری کی ترقی چند سالوں میں بالخصوص محدود رہی ہے۔ مثال کے طور پر 2006ء میں فروخت ہونے والے یونٹس کی تعداد 2,36,000 تھی اور اگر ہم 6 فیصد کی سالانہ ترقی بھی فرض کریں تو اس وقت ملک کو 5,00,000 یونٹس پر ہونا چاہیے تھا۔ نئے اداروں کی حالیہ آمد آٹو سیکٹر کے لیے حوصلہ افزاء ہے؛ لیکن مختصر عرصے میں ایک ساتھ کئی ماڈلز کی لانچ سے نمٹنا پریشان کن ہے۔ ملک میں گاڑیوں کی قیمتیں دیکھیں تو تقریباً 30 سے 38 فیصد تو مختلف ٹیکس اور ڈیوٹیز میں لگ جاتے ہیں۔ CKD کٹس پر ڈیوٹی کم کرنے کے بجائے حکومت نے ان یونٹوں کی تیاری میں استعمال ہونے والے اجزاء پر اسے کم کر سکتی ہے۔ دوسری جانب سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں کمی بھی گاڑیوں کی قیمتوں میں بڑی کمی کا سبب بن سکتی ہے۔
گاڑیوں کی پیداوار پر زر مبادلہ کی شرح کے اثرات کی وجہ سے بھی نئے ادارے خود کو نازک صورت حال میں پاتے ہیں۔ امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی سے مسلسل بڑھتے دباؤ سے نئے ادارے چھوٹے حجم اور لوکلائزیشن کی کم سطح کے ساتھ مشکل میں ہیں۔ اس لیے حکومت کولوکلائزیشن کا تعلق کم مقدار میں جدید ٹیکنالوجی کی گاڑیوں کے ساتھ جوڑ سکتی ہے تاکہ آٹو مینوفیکچررز کو انہیں مارکیٹ میں مناسب قیمت پر پیش کرنا آسان لگے۔ مثال کے طور پر چنگن اپنی گاڑیاں رائٹ ہینڈ ڈرائیو ممالک کو برآمد کرنا چاہتا ہے جسے مینوفیکچرنگ لاگتوں اور پرزوں کی بڑھتی ہوئی لوکلائزیشن کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
اب کہانی اس سے بالکل بالکل مختلف لگتی ہے جو آٹو پالیسی 2016-21ء کے تحت سرمایہ کاری کا آغاز پر تھی۔ اس وقت مارکیٹ نئے اداروں کی قسمت کا فیصلہ کرے گی اور یہ کہ وہ پرانے اداروں سے کتنا مارکیٹ شیئر حاصل کر پائیں گے۔ بہرحال، اس سے سب سے زیادہ فائدہ صارفین اٹھائیں گے۔ تمام آٹو مینوفیکچررز زیادہ مارکیٹ شیئر پانے کے لیے جدوجہد کریں گے اور اپنی گاڑیوں میں نئی اور بہتر خصوصیات پیش کرکے اپنےنقوش چھوڑیں گے۔ صارفین کو مارکیٹ میں مناسب قیمت پر زیادہ معیاری مصنوعات ملیں گی۔ ملک کی موجودہ اقتصادی و سیاسی صورت حال میں طلب بتدریج بڑھے گی۔ آٹوموبائل انڈسٹری کے حوالے سے حکومتی پالیسیاں نئے اداروں کا مستقبل طے کرنے میں اہم کردار ادا کریں گی کیونکہ اس وقت کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جو اس شعبے کی ترقی کو روکتا ہو۔
دوسری جانب روپے کی قدر میں کمی آٹومینوفیکچررز کے لیے مناسب قیمت پر اپنی مصنوعات پیش کرنے میں بدستور ایک رکاوٹ ہے۔ اس کا نتیجہ قیمتوں میں مسلسل اضافے کی صورت میں نکلتا ہے کیونکہ پرزوں کی تیاری میں استعمال ہونے والا خام مال بھی دیگر ملکوں سے درآمد کیا جاتا ہے۔ بہرحال، یہ مقامی صنعت میں پرانے اور نئے دونوں اداروں کو درپیش یکساں چیلنج ہوگا۔ مزید یہ کہ متعدد نئے ماڈلز کے سڑکوں پر پر آنے سے آن یا پریمیم منی چارج کرنے والی مافیا کا بھی جلد خاتمہ ہو جائے گا۔
پاکستان میں آٹو موبائل انڈسٹری کے مستقبل کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ اپنی قیمتی رائے نیچے تبصروں میں دیجیے۔ مزید خبروں کے لیے پاک ویلز پر آتے رہیے۔