پاکستان میں استعمال شدہ گاڑیوں کی قیمتیں بڑھنے لگیں: رپورٹ

جہاں ایک طرف گاڑیوں کی بڑھتی قیمتوں نے پاکستان میں ہلچل مچا دی ہے تو دوسری جانب نئی گاڑیوں کی قیمتوں میں یکے بعد دیگرے اضافے کے بعد، صارفین کے پاس استعمال شدہ کاروں کے حصے میں بھی کوئی آپشن نہیں رہا ہے۔

بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں استعمال شدہ کاریں فروخت کنندگان کے لیے منافع کمانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں۔

کراچی میں مقیم تجزیہ کار فرم “Optimus Capital Management” (OCM) نے پاکستان کو “ایک غیر معمولی ملک” قرار دیا ہے جہاں پانچ سال قبل 20 لاکھ روپے میں خریدی گئی کار پانچ سال استعمال کے بعد بھی 32 لاکھ روپے کی رقم میں فروخت کی جا سکتی ہے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے، یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ سرمایہ کار نئی کاروں کی ایک کھیپ خریدتے ہیں اور ان پر بھاری “آن منی” وصول کرتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق صارفین  آن منی کی صورت میں 35 ارب سالانہ ادا کرتے ہیں۔

ماہرین نے بکھرتی ہوئی معیشت کو کاروں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور متعلقہ مارکیٹ کے حالات کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ فرنٹیئر مارکیٹس کے سرمایہ کار ٹنڈرا فونڈر اے بی کے مطابق ایسے ہی رجحانات ان ممالک میں دیکھے جا سکتے ہیں جنہیں کرنسی کی قدر میں کمی کا سامنا ہے۔

ٹنڈرا فونڈر کے چیف انویسٹمنٹ آفیسر میٹیاس مارٹنسن کہتے ہیں کہ ہماری زیادہ تر مارکیٹس میں، جن میں نسبتاً مستحکم کرنسیاں ہیں، ہم نے اس عنصر کو نہیں دیکھا۔ اس کے علاوہ مصر میں بھی پاکستان کی آٹوموبائل انڈسٹری جیسی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔

گاڑیوں کی پیدا کردہ جعلی کمی

رپورٹ کے مطابق کار اسمبلرز کے پاس 400000 یونٹس بنانے کی گنجائش ہے لیکن وہ ایک سال میں صرف 200000 کی پیداوار کرتے ہیں تاکہ مارکیٹ میں گاڑیوں کی قلت موجود رہے۔ اس مسئلے کے پیچھے کی وجہ “آن منی” ہے – ایک بلیک مارکیٹ پریمیم جو کار ساز، ڈیلرز، اور دیگر تاجر حاصل کرتے ہیں۔

اس رپورٹ میں پہلی بار اس چیز کو سامنے لایا گیا بلکہ اس سے قبل پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے بھی یہی رپورٹ دی تھی۔ جس میں آن منی اور ڈیلیوریز میں تاخیر کے بارے میں کھل کر بات کی گئی تھی۔ کمیٹی کے اراکین نے کہا کہ “آن منی” زیادہ کمانے کا محض ایک حربہ ہے۔

Exit mobile version