یہ معاملہ اس وقت بے نقاب ہوا جب گاڑی کا مالک، متعلقہ پولیس اسٹیشن پر اپنی گاڑی نہ پا کر، خود تحقیقات کرنے پر مجبور ہوا۔ اس نے اپنی گاڑی کو بھٹہ چوک میں پولیس اہلکاروں کے ذریعے استعمال ہوتے دیکھا۔ جب اس نے سوال کیا تو پولیس اہلکاروں نے مبینہ طور پر کہا، ’’چھوڑ دیں، یہ خفیہ آپریشن کے لیے ہے،‘‘ تاکہ گاڑی کے استعمال کو جاری رکھنے کا جواز دیا جا سکے۔
ایسے اقدامات حکام کی فوری توجہ کے متقاضی ہیں تاکہ قانون کی پاسداری کو یقینی بنایا جا سکے اور جوابدہی کو فروغ دیا جا سکے۔
قانونی اور اخلاقی پہلو
یہ واقعہ پولیس کی جوابدہی اور اخلاقیات کے حوالے سے اہم خدشات کو جنم دیتا ہے۔ اس میں شامل اہم مسائل درج ذیل ہیں:
- شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی: گاڑی کے مالک کے پاس مکمل دستاویزات موجود تھیں، جس سے اس قبضے کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھتے ہیں۔
- اختیارات کا ناجائز استعمال: پولیس اہلکاروں کو قانون کی پاسداری کی ذمہ داری دی گئی ہے، نہ کہ اسے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرنے کی۔
- عوامی اعتماد کا خاتمہ: ایسے اقدامات قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عوامی اعتماد کو کمزور کرتے ہیں اور بے قابو طاقت اور کرپشن کا تصور پیدا کرتے ہیں۔
- قانون کی خلاف ورزی: ضبط شدہ گاڑیاں ریاستی اثاثہ ہوتی ہیں اور قانونی یا تفتیشی مقاصد کے لیے مختص ہوتی ہیں۔ انہیں ذاتی استعمال میں لانا غیر قانونی ہے اور سخت کارروائی کا متقاضی ہے۔
رروک تھام کیسے ممکن ہے؟
عوامی اعتماد کی بحالی اور ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے درج ذیل اقدامات ضروری ہیں:
- سخت جوابدہی: ضبط شدہ گاڑیوں کے غلط استعمال میں ملوث قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے خلاف تادیبی کارروائی اور قانونی نتائج کا سامنا کیا جائے۔
- شفاف طریقہ کار: پولیس ڈیپارٹمنٹ کو ضبط شدہ گاڑیوں کا واضح ریکارڈ رکھنا چاہیے جو آزاد نگرانی اداروں کی رسائی میں ہو۔
- حقوق کی آگاہی: شہریوں کو ایسے معاملات میں اپنے حقوق کے بارے میں آگاہی دی جائے تاکہ وہ غیر قانونی عمل کے خلاف مؤثر انداز میں آواز اٹھا سکیں۔
- داخلی اصلاحات: پولیس تربیتی پروگراموں میں اخلاقیات اور جوابدہی پر زور دیا جائے تاکہ اختیارات کے غلط استعمال کو روکا جا سکے۔
پولیس کا مقصد انصاف کے محافظ بننا ہے، نہ کہ اس کی خلاف ورزی کرنا۔ اعتماد کی بحالی اور دیانت داری کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان غیر اخلاقی رویوں کو ختم کیا جائے اور قانون توڑنے والوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے۔ صرف اسی صورت میں عوام قانون کو تحفظ کی ڈھال سمجھیں گے، نہ کہ استحصال کا ذریعہ۔