لاہور کی موٹر سائیکل لین بارش میں کیوں پھسلن زدہ ہو جاتی ہے؟ – وضاحت

فیروز پور روڈ، لاہور پر حال ہی میں تعمیر کی گئی موٹر سائیکل لین، جو ٹریفک کو بہتر بنانے اور سواروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے بنائی گئی تھی، بارش کے دوران ایک ممکنہ خطرہ بن چکی ہے۔ سواروں کا کہنا ہے کہ ہلکی سی بریک لگانے پر بھی ٹائروں کا پھسلنا شروع ہو جاتا ہے، جیسے کہ وہ برف سے ڈھکی سڑک پر ہوں۔ ذیل میں، ہم اس خطرناک خامی کے سائنسی پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔

پینٹ کی کم رگڑ ویلیو

روڈ گرِپ کا انحصار مائیکرو ٹیکسچر (چھوٹی سطحی کھردری) اور میکرو ٹیکسچر (بڑے نالے) پر ہوتا ہے، جو پانی کو ہٹانے اور ٹائروں کے ساتھ سڑک کے رابطے کو برقرار رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔ معیاری موٹر سائیکل لین پینٹس میں اینٹی-اسکڈ اجزاء جیسے کہ کرَشڈ کوارٹز، ایلومینیم آکسائیڈ یا پالیمر گرِٹ شامل کیے جاتے ہیں تاکہ رگڑ پیدا ہو۔

تاہم، اگر فیروز پور روڈ پر استعمال ہونے والا سبز رنگ کم قیمت ایکریلک یا واٹر بیسڈ ہے، تو اس میں ممکنہ طور پر یہ اجزاء شامل نہیں کیے گئے ہوں گے۔ اس کا نتیجہ ایک ہموار، شیشے جیسی سطح کی صورت میں نکلتا ہے۔ جب بارش کا پانی اس پرت کو ڈھانپ لیتا ہے، تو رگڑ کا گتانک (μ) 0.2–0.3 تک گر سکتا ہے (جو گیلی برف کے برابر ہے)، جبکہ مناسب ساخت والے ڈامر پر یہ 0.5–0.7 ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں، بریک لگانا خطرے سے خالی نہیں رہتا: ہلکا سا دباؤ بھی گرفت ختم کر دیتا ہے اور بائیک پھسلنے لگتی ہے۔

ہائیڈروڈائنامک ٹریپنگ

موٹر سائیکل لین کے لیے 1-2% کا کراس سلوپ ضروری ہوتا ہے تاکہ پانی نالیوں کی طرف بہہ سکے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ لین سڑک کے کنارے بنی ہوئی ہے اور دونوں جانب کنکریٹ بلاکس لگے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے بارش کا پانی اس لین سے طویل وقت تک خارج نہیں ہو پاتا۔

کم معیار کا پینٹ اس مسئلے کو مزید سنگین بنا دیتا ہے کیونکہ یہ ایک واٹر پروف جھلی (membrane) کا کام کرتا ہے، جس کی وجہ سے ٹائروں اور سڑک کے درمیان پانی کی ایک پتلی تہہ بن جاتی ہے۔ جب رفتار 30 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ ہو، تو یہ ہائیڈروپلاننگ (hydroplaning) پیدا کر سکتا ہے—جس میں ٹائر سڑک سے رابطہ کھو دیتے ہیں اور پانی پر تیرنے لگتے ہیں۔ گاڑیوں کے برعکس، موٹر سائیکلوں کے صرف دو پتلے رابطے والے حصے ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ہائیڈروپلاننگ کا نتیجہ تباہ کن ہو سکتا ہے۔

کم معیار کا پینٹ

پائیدار روڈ پینٹس کیمیاوی طور پر ڈامر (asphalt) کے مساموں کے ساتھ جُڑ جاتے ہیں، جبکہ سستے پینٹس صرف ایک سطحی تہہ بناتے ہیں۔ جب بارش کا پانی ان پینٹس اور ڈامر کے درمیان چھوٹے خلا میں داخل ہوتا ہے، تو یہ ہائیڈرالک دباؤ کے ذریعے چپکاؤ کو کمزور کر دیتا ہے۔ جیسے ہی پینٹ اکھڑتا ہے، ناہموار جگہیں بنتی ہیں، اور اس کے کنارے جھڑنے لگتے ہیں۔

یہ مختلف رگڑ والے زون پیدا کرتے ہیں: ٹائر اچانک زیادہ رگڑ (کھلی ہوئی ڈامر کی سطح) سے کم یا صفر رگڑ (پینٹ شدہ علاقے) پر منتقل ہوتے ہیں، جس سے موٹر سائیکل کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ اس ناہموار گرفت کی وجہ سے بائیک کا اچانک اور بے قابو پھسلنا عام بات بن جاتی ہے۔

مواد کی خرابی

کم معیار کے پینٹس مسلسل ٹائر رگڑ کے باعث خراب ہو جاتے ہیں۔ مسلسل ٹریفک سطح کو “چمکدار” بناتی جاتی ہے، جس سے یہ مزید ہموار ہو جاتی ہے۔ پھر بارش کا پانی گھِسے ہوئے پینٹ کے ذرات کے ساتھ مل کر ایک چکنی تہہ بناتا ہے، جو ڈامر کے قدرتی نالوں کو بھر دیتا ہے۔ وقت کے ساتھ، یہ لین مکمل طور پر چکنی ہو جاتی ہے، جیسے گیلی سرامک ٹائل ہو۔

یہ کیچڑ ہسٹریسِس (hysteresis) کو بھی کم کر دیتا ہے—یعنی وہ توانائی کا نقصان جو ٹائر کے ربڑ اور سڑک کے درمیان رگڑ پیدا کرتا ہے۔ ہسٹریسِس کے بغیر، ٹائر سطح پر “چپک” نہیں پاتے، چاہے جدید اے بی ایس سسٹم ہی کیوں نہ ہو۔

تھرمل ایکسپینشن اور یو وی ڈیمیج

لاہور کا موسم اس مسئلے کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ روزانہ درجہ حرارت میں اتار چڑھاؤ تھرمل سائکلنگ (thermal cycling) پیدا کرتا ہے، جس میں مواد پھیلتا اور سکڑتا ہے۔ سستے پینٹس میں ایلاسٹیسائزرز (elasticizers) نہیں ہوتے، جو تناؤ جذب کر سکیں، اس لیے ان میں دراڑیں پڑنے لگتی ہیں۔ یو وی شعاعیں بائنڈرز کو مزید کمزور کر دیتی ہیں، جس سے پینٹ سخت اور نازک ہو جاتا ہے۔

بارش کا پانی ان دراڑوں میں داخل ہو کر مزید نقصان پہنچاتا ہے، اور جب رات کے وقت درجہ حرارت گرتا ہے تو یہ پانی جم کر دراڑوں کو مزید وسیع کر دیتا ہے (freeze-thaw cycling)۔ نتیجہ ایک شکستہ سطح کی صورت میں نکلتا ہے جو پانی کو مزید زیادہ عرصے تک روک کر رکھتی ہے اور پینٹ کی خرابی کو تیز کر دیتی ہے۔

آپ کا تجربہ؟

کیا آپ نے لاہور میں اس موٹر سائیکل لین پر پھسلنے کا سامنا کیا ہے؟ نیچے کمنٹس میں ہمیں اپنی رائے سے آگاہ کریں۔

Exit mobile version