بااِختیار خواتین – کراچی پولیس میں پہلی بار خواتین رائیڈرز کی تقرری
کراچی ٹریفک پولیس نے پہلی بار شہر میں رائیڈرز کے طور پر دو خواتین کو تعینات کیا ہے۔ یہ
خواتین افسران ٹریفک خلاف ورزیوں پر نظر رکھنے کے لیے مقرر کی گئی ہیں۔ سماویہ اور رضیہ
نامی ان خواتین نے کراچی ٹریفک پولیس میں خواتین کو بااختیار بنانے کے دروازے کھولے ہیں۔
پولیس کے مطابق ان دونوں کے پٹرولنگ موٹر سائیکلیں سنبھالنے سے پہلے انہیں اس کی خصوصی
تربیت دی گئی تھی۔ پولیس نے رضیہ کو کراچی کے ضلع شرقی میں مقرر کیا ہے جبکہ سماویہ اپنی
ذمہ داریاں ضلع جنوبی میں انجام دے رہی ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں پولیس فورس میں مردوں
کا غلبہ ہے، یہ بلاشبہ ایک بہترین قدم ہے۔
یہ خیال آیا کہاں سے؟
پولیس افسران کے موٹر سائیکل استعمال کرنے کا یہ خیال 2020ء میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس ندیم
احمد نے پیش کیا تھا کیونکہ یہ ٹرانسپورٹ کے لیے زیادہ آسان طریقہ ہے۔ اقوامِ متحدہ کے تحت
انڈونیشیا میں اپنی تقرری کے دوران ندیم احمد نے سوچا کہ پاکستانی خواتین کو بھی انڈونیشیا کی
خواتین کی طرح خود مختار ہونا چاہیے۔ DSP نے یہ بھی تجویز کیا کہ رائیڈنگ کو پولیس تربیت کا
لازمی حصہ بنانا چاہیے۔
پاکستان واپس آنے کے بعد ندیم احمد نے یہ دیکھنے کہ بعد اس منصوبے کے عملی نفاذ کا فیصلہ کیا
کہ زیادہ تر خواتین پولیس اہلکاروں کو ٹرانسپورٹ کے مسائل کا سامنا ہے۔ اس لیے پولیس نے فیصلہ
کیا کہ وہ خواتین افسران کو موٹر سائیکل چلانے کی تربیت کے لیے قائل کرے اور تحریک دے۔ البتہ
خواتین کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا، یہاں تک کہ تربیت کے دوران کئی خواتین زخمی بھی
ہوئیں لیکن انہوں نے تربیت کا سلسلہ پھر بھی جاری رکھا۔
ایڈیشنل آئی جی کراچی کیا کہتے ہیں؟
کراچی پولیس کے چیف ایڈیشنل انسپکٹر جنرل غلام نبی میمن نے دونوں خواتین کو مبارک باد پیش
کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ قدم کراچی پولیس میں خواتین کو با اختیار بنانے کی پالیسی کے عین
مطابق اٹھایا گیا ہے۔
یہ بلاشبہ کراچی پولیس کا ایک بہترین قدم ہے کیونکہ اس سے دوسری خواتین کو بھی خود مختار
اور خود انحصار بننے کا حوصلہ ملے گا، سڑکوں پر اُن کا تحفظ بڑھے گا اور پولیس فورس میں ان
کی موجودگی میں اضافہ ہوگا۔
اس حوالے سے آپ کی رائے کیا ہے؟ اپنے خیالات نیچے تبصروں میں پیش کیجیے۔
مزید نیوز، ویوز اور ریویوز کے لیے پاک ویلز بلاگ پر آتے رہیے۔