پاکستان میں موٹر اسپورٹس کا زوال؛ مستقبل کیا ہوگا؟

1 177

ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں کہ جہاں کھیل کے معنی کرکٹ ہیں۔ لوگ کھاتے پیتے، اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے غرض کہ ہر وقت بس کرکٹ کھیلنا اور دیکھنا چاہتے ہیں۔ پڑوسی ملک بھارت میں تو کرکٹ کو مذہب مانا جاتا ہے اور کرکٹ کھیلنے والوں کو پوجا جاتا ہے۔ ایسے میں بہت کم لوگ ہوں گے جنہوں نے “موٹر – اسپورٹس” کی اصطلاح سن رکھی ہوگی۔ میں نے بچپن میں اس کا ذکر سنا اور جب سے اب تک سوائے اس کھیل پر لوگوں کی عدم توجہی کے کچھ نہ دیکھ سکا۔

یہ سال 1998 کی بات ہے کہ جب مائیکل شو ماکر اور میکا ہیکینن اکثر 9 بجے کے خبرنامہ میں نظر آتے تھے۔ پھر سال 2000 آیا کہ جب روبنز باركيلو نے یاد گار کھیل پیش کرتے ہوئے جرمن گراں پری میں زبردست فتح حاصل کی۔ یہ ریس نمی والے ٹریک پر تھی کہ جس پر گاڑی چلانے کے لیے نہ صرف بے پناہ مہارت درکار ہوتی ہے بلکہ اپنے اعصاب کو بھی قابو میں رکھنا پڑتا ہے۔ روبنز باركيلو نے اس فتح کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جس کی چند جھلکیاں آپ اس ویڈیو میں بھی دیکھ سکتے ہیں:

https://www.youtube.com/watch?v=mcJYKpcN00E

روبنز باركيلو کی ماہرانہ ڈرائیونگ سے قبل گاڑیوں کی ریسنگ کا مقصد محض برق رفتاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حریف کو پیچھے چھوڑ دینا ہوا کرتا تھا۔ اسی روشن کا شکار بہت سے جوشیلے ڈرائیور عام سڑکوں پر چلتی گاڑیوں کو پیچھے چھوڑ کر خوش ہوتے تھے۔

جس طرح آج کی نئی نسل فرنانڈو الونسو اور لیوس ہیملٹن کو دیکھتی اور پسند کرتی ہے بالکل اسی طرح میں اپنے بچپن میں روبنز باركيلو سے بہت متاثر تھا اور خود کو کسی بھی طرح گاڑیوں کی ریس کا حصہ بنانا چاہتا تھا۔ لیکن جلد ہی مجھے اندازہ ہوگیا کہ پاکستان میں رہتے ہوئے ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔

یہ بھی دیکھیں: فارمولا وَن کے ستارے میکس ورستاپین برف پر RB7 دوڑاتے ہوئے

موٹر-ریسنگ کی تاریخ اتنی ہی پرانی کے جتنی خود گاڑیوں کی تاریخ ہے۔ لیکن پاکستان میں یہ معاملہ نہیں کیوں کہ یہاں اب تک اس کے خیال کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ سب سے زیادہ افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں نوجوان ڈرائیوروں کو گاڑیوں کی ریسنگ سکھانے والا کوئی ایک ادارہ بھی موجود نہیں۔ جب میں نے گوگل پر اس حوالے سے تلاش شروع کی تو یہ نتیجہ سامنے آیا:

Google results for 'racing schools'

مزید تلاش کرنے پر گھڑ سواری کی تربیت فراہم کرنے والے چند ادارے تو مل گئے لیکن موٹر-ریسنگ سے متعلق کوئی ایک ادارہ بھی نہ مل سکا۔ اس حوالے سے جو تھوڑا بہت مواد انٹرنیٹ پر دستیاب ہے وہ پاک ویلز کے اراکین کی مرہون منت ہے جس پر انہیں داد دینی چاہیے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کے علاوہ شاید کوئی بھی اس کھیل کے بارے میں جانتا نہیں یا اس میں دلچسپی نہیں رکھتا۔

“]Google search results for racing institutes in Pakistan

اب سے چند سال قبل لوگوں میں چار پہیوں والی منفرد گاڑیوں Go-Kart کا شوق شروع ہوا تو اس وقت چند ایک تربیتی مراکز بھی نظر آنے لگے۔ لیکن جلد ہی یہ کاروباری زوال پذیر ہوگیا اور تربیتی مراکز بھی بند ہونے لگے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے آیا یہ محض لوگوں کا جزوقتی شوق تھا جو وقت کے ساتھ ختم ہوگیا یا پھر بنیادی ضرورتوں کی عدم فراہمی کے باعث لوگوں نے اس کھیل سے منہ موڑ لیا؟

یہ بہت عجیب بات معلوم ہوتی ہے کہ دنیا میں سب سے بڑی آبادی والے ممالک میں چھٹا درجہ رکھنے کے باوجود ہمارے یہاں موٹر –ریسنگ کا کوئی سرکاری ادارہ تک موجود نہیں ہے۔ یہ بات اس وقت اور بھی زیادہ حیران کن معلوم ہوتی ہے کہ جب آپ گاڑیوں سے لوگوں کے بے پناہ لگاؤ اور شوق کو دیکھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مشہور فٹ بالر ڈیوڈ بیکھم کی بیش قیمت گاڑیاں

کسی بھی کام کو انجام دینے کے لیے سرمایہ درکار ہوتا ہے اور کاروباری افراد ایسے کسی کام میں ہاتھ نہیں ڈالتے کہ جس میں ان کی رقم ڈوب جانے کا خطرہ ہو۔ شاید اسی لیے آج تک اس ضمن میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ لیکن اب صورتحال تبدیل ہوچکی ہے۔ فارمولا 1 اور موٹوجی پی کئی سالوں سے کامیابی اور شہرت کی بلندیوں کو چھو رہی ہیں جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ موٹر-شوز کا رجحان تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ اب گاڑیوں سے متعلق سرگرمیوں کو مقبولیت کے ساتھ معاشی اعتبار سے بھی خاصی ترقی حاصل ہورہی ہے۔ اس صورتحال کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ اب سے دس سال پہلے جن آئیڈیاز کو فضول سمجھ کر رد کیا گیا تھا وہ آج کامیاب ثابت ہو رہے ہیں۔

سوال پھر وہی ہے کہ آیا پاکستان میں گاڑیوں کا شوق رکھنے والوں میں سے کوئی نئے آئیڈیاز پر کام کرنے سے متعلق سوچنے اور پھر اس پر عمل کرنے کی ہمت کر سکے گا؟

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.