چینی کار ساز ادارے ترقی کی راہ پر گامزن؛ پاکستانی ادارے کب سیکھیں گے؟

0 248

سال 2008 میں چینی کار ساز اداروں نے دنیا کے دیگر تمام ممالک سے زیادہ گاڑیاں تیار کیں۔ آئندہ سال یعنی 2009 سے چین میں تیار ہونے والی گاڑیوں کی تعداد یورپ اور امریکا و جاپان میں بننے والی گاڑیوں سے بھی تجاوز کر گئی۔ صرف 2014 میں مجموعی طور پر چین میں 2 کروڑ 37 لاکھ سے گاڑیاں تیار کی گئیں جو دنیا بھر میں تیار ہونے والی گاڑیوں کا 26 فیصد حصہ بنتا ہے۔ جتنی گاڑیاں پاکستان میں ایک سال کے دوران فروخت ہوتی ہیں، چین میں اس سے دو گنا زیادہ گاڑیاں ہر ماہ تیار و فروخت ہوتی ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق چین میں 140 قومی اور بین الاقوامی کار ساز ادارے کام کر رہے ہیں۔ چین میں گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی فروخت دیکھتے ہوئے مزید کار ساز ادارے بھی وہاں کا رخ کر رہے ہیں۔ موجودہ دور میں کہ جب گاڑیوں کو متبادل توانائی سے چلانے کی کوششیں عروج پر ہیں، دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہائبرڈ اور برقی گاڑیاں بھی چین ہی میں بنائی جا رہی ہیں۔

چین میں کام کرنے والے تمام ہی کار ساز ادارے مقامی مارکیٹ کے لیے خصوصی گاڑیاں پیش کر رہے ہیں جو دنیا کے دیگر ممالک میں دستیاب نہیں ہیں۔ ان میں پرتعیش گاڑیاں بنانے والی ادارے مثلاً آڈی، جیگوار، رینج روور، ووکس ویگن، مرسڈیز اور بی ایم ڈبلیو وغیرہ بھی چینی مارکیٹ کے لیے اپنی گاڑیاں اضافی لمبائی کے ساتھ پیش کر رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ چین میں ایسی گاڑیوں کو پسند کیا جانا ہے کہ جن میں اگلی اور پچھلی نشستوں کے درمیان زیادہ فاصلہ ہو۔

47526.attach

دنیا بھر میں 1300cc اور 1500cc انجن کے ساتھ دستیاب ہونڈا سِٹی کو چین میں بطور خاص 1800cc انجن کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔اس کی ایک اور مثال ٹویوٹا بیلٹا کی صورت میں موجود ہے کہ جو باقی دنیا کے لیے 1000cc اور 1300cc انجن کے ساتھ دستیاب ہے لیکن چین میں 1600cc انجن کے ساتھ فروخت کی جارہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چینی ادارے زوتیے کی گاڑیاں جو پاکستان میں پیش کی جاسکتی ہیں!

چینی میں گاڑیوں کی منفرد کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ سب سے دلچسپ بات تو یہ ہے کہ چین میں غیر ملکی کار ساز ادارہ کسی بھی چینی ادارے کے ساتھ مل کر اپنی گاڑیاں فروخت کرسکتا ہے۔ چینی اداروں کے پاس یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ ایک وقت میں متعدد غیر ملکی اداروں کے ساتھ مل کر کاروبار کرے۔ اس پالیسی کے انتہائی دلچسپ نتائج حاصل ہوئے۔ چین میں ایسی گاڑیاں بھی تیار کی جارہی ہیں جو تکنیکی اعتبار سے بالکل ایک جیسی ہیں لیکن صرف نام اور ڈیزائن مختلف ہے۔ آئیے، ایسی ہی چند گاڑیوں پر نظر ڈالتے ہیں:

ٹویوٹا کرولا / ٹویوٹا لیوِن

جاپانی کار ساز ادارے ٹویوٹا نے چین میں دو مختلف کارساز اداروں FAW (فرسٹ آٹو موبائل ورکس) اور GAC (گوانگژو آٹو کارپوریشن) کے ساتھ اشتراک کر رکھا ہے۔ ٹویوٹا کے علاوہ FAW نے جنرل موٹرز، مزدا اور ووگس ویگن کے ساتھ بھی کام کر رہا ہے جبکہ GAC بھی ٹویوٹا کے ہم وطن ہونڈا کے علاوہ فیات اور مٹسوبش کے ساتھ مختلف گاڑیاں تیار کر رہا ہے۔ مذکورہ چینی ادارے خود اپنی گاڑیاں بھی تیار کرتے ہیں جن میں غیر ملکی اداروں کی گاڑیوں سے حاصل ہونے والی ٹیکنالوجی استعمال کی جاتی ہے۔

چین میں ٹویوٹا کرولا کی گیارہویں جنریشن FAW-ٹویوٹا کے اشتراک سے پیش کی گئی۔ یہ بالکل پاکستان و دیگر ممالک میں دستیاب کرولا جیسی ہی ہے۔ اس کے مقابلے میں GAC بھی اپنی گاڑی مارکیٹ میں اتارنا چاہتا ہے لہٰذا انہوں نے ٹویوٹا کے ساتھ مل کر ٹویوٹا لیوِن پیش کردی۔ اس کا انداز امریکا میں دستیاب گیارہویں جنریشن کرولا E170 جیسا ہے۔ آج ہم کرولا کے نئے انداز (فیس لفٹ) کی خفیہ تصاویر پر واہ واہ کر رہے ہیں جبکہ چین میں یہ گاڑی پیش بھی کی جاچکی ہے۔ دونوں ہی اداروں FAW اور GAC نے نئے انداز کی کرولا کے ساتھ ہائبرڈ اور برقی ماڈلز بھی پیش کردیئے ہیں۔

ہونڈا سِٹی / ہونڈا گریز

ہونڈا چین میں GAC (گوانگژو آٹو کارپوریشن) اور DMC (ڈونگ فینگ موٹر کارپوریشن) کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ چینی ادارہ DMC ہونڈا کے علاوہ دیگر غیر ملکی کار ساز اداروں کے ساتھ بھی مشترکہ منصوبوں پر مصروف عمل ہے جن میں نسان / انفنیٹی، پیجیوٹ / سٹریون، رینالٹ (رینو) اور کیا موٹرز شامل ہیں۔ چونکہ GAC اور ہونڈا مل کر چین میں ہونڈا سِٹی کی چھٹی جنریشن فروخت کر رہے ہیں اس لیے DMC نے بھی ہونڈا کے ساتھ مل کر اس طرز کی گاڑی مارکیٹ میں لانے کا فیصلہ کیا۔ یوں ہونڈا گریز وجود میں آئی جس میں 1500cc انجن سمیت وہ تمام خصوصیات شامل ہیں جو GAC- ہونڈا کی پیش کردہ سِٹی کا حصہ ہیں۔ چین میں دستیاب ہونڈا سِٹی اور ہونڈا گریز میں نام کے علاوہ صرف انداز کا فرق ہے۔ ہونڈا گریز میں گاڑی کی عقبی لائٹس نئی سِوک سے لی گئی ہیں۔ GAC–ہونڈا سِٹی 1800cc انجن کے ساتھ بھی پیش کی جاتی ہے جبکہ DMC-ہونڈا گریز میں یہ انجن شامل نہیں۔

ہونڈا وِزل / ہونڈا XR-V

دو اداروں کی جانب سے ایک ہی گاڑی مختلف ناموں سے پیش کیے جانے کی ایک اور مثال ملاحظہ کیجیے۔ GAC-ہونڈا نے چین میں ہونڈا وِزل متعارف کروائی تو DMC-ہونڈا کے اشتراک سے بھی اسی گاڑی کو پیش کردیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ GAC–ہونڈا وِزل فروخت کر رہی ہے تو اسی مارکیٹ میں DMC-ہونڈا XR-V بھی دستیاب ہے۔ چین میں دستیاب وِزل ہائبرڈ خصوصیات کی حامل نہیں بلکہ اسے دو 4-سلینڈر پیٹرول انجن (1500cc اور 1800cc) کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ دونوں ہی انجن کے ساتھ 5-اسپیڈ مینوئل یا CVT ٹرانسمیشن منسلک ہوتے ہیں۔ ہونڈا XR-V تکنیکی اعتبار سے بالکل انہی خصوصیات کی حامل ہے۔ ان دونوں گاڑیوں میں فرق محض ظاہری انداز کا ہے۔

چین کی سب سے قابل ذکر پالیسی یہ ہے کہ وہ غیر ملکی شراکت ادارے کی ٹیکنالوجی منتقل کرنے پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج چین میں گاڑیوں کی صنعت روز بروز ترقی کی جانب گامزن ہے۔ پاکستان میں الحاج FAW موٹرز کی پیش کردہ سائرس اور V2 اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ سائرس دراصل ڈائی ہاٹسو زینیا جبکہ V2 درحقیقت ٹویوٹا وِٹز کی ٹیکنالوجی سے بنائی گئی ہے۔ یہ دونوں گاڑیاں، ڈائی ہاٹسو زینیا اور اور ٹویوٹا وِٹز، چین میں FAW-ٹویوٹا کے اشتراک سے فروخت کی جاتی رہی ہیں۔ اس اشتراک کا سب سے زیادہ فائدہ FAW کو ہوا جو بعد ازاں اپنا پلیٹ فارم تخلیق کرنے میں کامیاب ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی صارفین کے لیے موزوں 7 کم قیمت اور مختصر چینی گاڑیاں

یہی وہ حکمت عملی ہے جسے پاکستان میں گاڑیوں کے شعبے سے منسلک اداروں کو اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔ کسی بھی پرانی یا نئی گاڑی کی ٹیکنالوجی حاصل کریں اور اسے اپنے پلیٹ فارم پر تیار کر کے فروخت کریں۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں مقامی اداروں نے جاپانی کارساز اداروں سے طویل شراکت داری کے باوجود کچھ بھی نہیں سیکھا۔ پاکستان میں مقبول گاڑیوں جیسے سوزوکی بلینو، ہونڈا سِٹی SX8 یا پھر ٹویوٹا کروا E120 کے پلیٹ فارم بنا کر اور ٹیکنالوجی حاصل کر کے ہم مقامی سطح پر نئی گاڑیوں کی تیاری ممکن بناسکتے تھے۔ لیکن اب تک ایسا نہ ہوا۔ اور اگر یہی روش جاری رہی تو شاید آئندہ بھی کبھی ایسا نہ ہو۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.