الیکٹرک وہیکل پالیسی پر اختلاف – مسئلہ آخر ہے کیا ؟

0 206

کابینہ ڈویژن نے وزارتِ موسمیاتی تبدیلی (کلائمٹ چینج) کی تیار کی گئی مجوزہ الیکٹرک وہیکل پالیسی کو مسترد کردیا ہے اور وزارتِ صنعت و پیداوار اور وزارتِ موسمیاتی تبدیلی کے اراکین پر مشتمل ایک 12 رکنی کونسل تشکیل دے دی ہے تاکہ آپس کے اختلافات کا خاتمہ کرتے ہوئے اتفاقِ رائے سے پالیسی کو آخری شکل دی جا سکے۔ 

وزیر اعظم عمران خان مقامی آٹوموبائل انڈسٹری میں الیکٹرک تبدیلی کا وژن رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ایک اجلاس کی صدارت کی تھی کہ جس میں موسمیاتی تبدیلی پر کمیٹی بھی شامل تھی کہ جس میں انہیں الیکٹرک گاڑیوں اور ان کے فوائد کے حوالے سے مختلف تحقیق سے آگاہ کیا۔ ماحولیاتی و معاشی فوائد کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم نے ایک الیکٹرک وہیکل پالیسی مرتب کرنے کا حکم دیا۔ موسمیاتی تبدیلی کے لیے وزیر اعظم کے مشیر ملک امین اسلم نے میڈیا کو بتایا کہ 2030ء تک ملک میں 30 فیصد گاڑیاں بیٹریوں پر منتقل ہو جائیں گی۔ الیکٹرک گاڑیوں کی جانب منتقل ہونے کا یہ فیصلہ توقعات کے مطابق تھا کیونکہ یہ بیرونِ ملک سے تیل درآمد کرنے کے اخراجات کو کم کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ بعد ازاں وزارتِ موسمیاتی تبدیلی نے ایک ای-پالیسی پر کام شروع کیا اور حال ہی میں اعلان کردیا کہ پالیسی مکمل کرکے منظوری کے لیے کابینہ کو بھیج دی گئی ہے۔ الیکٹرک وہیکل پالیسی کابینہ کے سامنے پیش کیے جانے کے لیے مکمل طور پر تیار تھی لیکن وزارت صنعت و پیداوار نے اس موقع پر مداخلت کردی۔ اس نے وزارت موسمیاتی تبدیلی کو ایک خط لکھا، جس میں واضح طور پر کہا گیا کہ ای-پالیسی بنانا وزارت موسمیاتی تبدیلی کے دائرۂ اختیار میں آتا ہی نہیں۔ 

الیکٹرک وہیکل پالیسی پر دونوں وزارتوں کے درمیان اختلافات ختم کرنے کے لیے بالآخر کابینہ ڈویژن نے مداخلت کی۔ بتایا گیا کہ شیڈول 11 کے مطابق کوئی بھی صنعتی پالیسی مرتب کرنے کا اختیار وزارت صنعت و پیداوار کو ہے۔ گو کہ وزارت موسمیاتی تبدیلی کا اس صنعت کے حوالے سے کوئی بھی پالیسی تیار کرنے سے تعلق نہیں لیکن جب اس پر کام شروع کردیا گیا تھا تو مشاورتی عمل جاری رکھنے کا فیصلہ ہونا چاہیے تھا۔ یوں ای-پالیسی کی تیاری میں ضروری مشاورت کو یقینی بنایا جاتا جو صنعتی ماحولیات کے معیار کو پورا کرتی ہے۔ اس لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جو سینئر عہدیداروں اور وزارت صنعت و پیداوار، وزارت موسمیاتی تبدیلی، بورڈ آف انوسٹمنٹ، وزارت تجارت اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو پر مشتمل تھی۔ ایڈیشنل سیکریٹری وزارت صنعت و پیداوار کو اس کمیٹی کا چیئرمین مقرر کیا گیا تھا۔ 

حال ہی میں وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت عبد الرزاق داؤد نے وزیر اعظم کے مشیر برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم کے ساتھ ایک ملاقات کی۔ وزارت صنعت و پیداوار کی جانب سے ایک جامع ای-وہیکل پالیسی بنانے کا فیصلہ کیا گیا کہ جو ماحولیاتی مسائل کے ساتھ ساتھ مقامی آٹو سیکٹر میں ایک صحت مند مقابلے کی فضا پروان چڑھانے کے معاملات دیکھے گی۔ پالیسی عام صارفین کے لیے بھی تمام قیمتوں میں انتخاب کرنے کے مواقع پیش کرے گی۔ انہوں نے مزید یقینی بنایا کہ آئندہ پالیسی آٹو ڈیولپمنٹ پالیسی ‏2016-21ء‎ (ADP) کے وسیع تر میدان کے مطابق نافذ کی جائے گی۔ پالیسی ماحول پر کاربن اثرات کو گھٹانے کے لیے الیکٹرک گاڑیاں متعارف کروانے اور ساتھ ہی موجودہ مقامی آٹو انڈسٹری کو بھی نقصان پہنچانے پر توجہ رکھے گی۔ مزید برآں، ای-پالیسی کو حتمی صورت دینے میں تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے گی۔ 

دوسری جانب امین اسلم اور CEO انڈس موٹر کمپنی علی اصغر جمالی کے درمیان ایک ملاقات ہوئی۔ اس موقع پر وزیر اعظم کے مشیر برائے موسمیاتی تبدیلی نے کہا کہ نئی آٹو پالیسی متعارف کروانے کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ آٹو ڈیولپمنٹ پالیسی ‏2016-21ء‎ الیکٹرک گاڑیوں کی ضروریات کو پورا نہیں کرتی۔ مقامی آٹو مینوفیکچررز کا ماننا ہے کہ الیکٹرک گاڑیاں متعارف کروانے کا کاروبار پر منفی اثر پڑے گا۔ البتہ وزارت موسمیاتی تبدیلی ای-پالیسی کی تیاری میں مزید کام نہیں کرے گی اور محض مشاورتی عمل کا حصہ بنے گی۔ 

الیکٹرک گاڑیاں متعارف کروانا پاکستان کے آٹو سیکٹر میں ایک بہت بڑی پیشرفت ہوگی لیکن موجودہ معاشی بحران کے حالات میں اس کا مستقبل زیادہ روشن نہیں دکھائی دیتا۔ پھر بھی کاربن اخراج سے ماحول کو بچانے کی سخت ضرورت ہے کہ جس نے آلودگی کی سطح غیر معمولی حد تک بڑھا دی ہے۔ الیکٹرک کاریں آٹوموبائل سیکٹر کا مستقبل ہیں اور دنیا پہلے ہی الیکٹرک کی جانب جا رہی ہے۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ وزارت صنعت و پیداوار کی جانب سے کون سی ای-وہیکل پالیسی سامنے آتی ہے۔ اس حوالے سے مزید خبروں کے لیے پاک ویلز پر آتے رہیں۔ اپنی رائے نیچے تبصروں میں پیش کیجیے۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.