استعمال شدہ گاڑیوں کی خرید و فروخت کا منفرد تجربہ اور چند دلچسپ واقعات

0 681

آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن حقیقت یہی ہے کہ استعمال شدہ گاڑی کی خرید و فروخت مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے۔ اس تجربے کے دوران یا تو آپ کو انتہائی مناسب قیمت میں بہترین و معیاری گاڑی مل جائے گی یا پھر آپ جیب پر بھاری پڑنے والی کسی گاڑی کو اٹھا لائیں گے اور پھر ہمیشہ بدنصیبی کا رونا روتے رہیں گے۔ اس دوران آپ کو بہت اچھے اور نیک انسان بھی ملیں گے اور ایسے فنکار بھی کہ جن سے آپ دوبارہ نہ ملنے کی دعا کریں۔ گاڑیوں کی خرید و فروخت کے لیے آن لائن ویب سائٹ نے جہاں کئی مراحل کو آسان بنا دیا ہے وہیں ان کا نامناسب استعمال بھی کیا جارہا ہے۔ یہاں میں چند ایسے واقعات اپنے قارئین تک پہنچاؤں گا جن سے میں بذات خود گزرا ہوں یا پھر مجھے اپنے عزیز و اقارب کے ذریعے کسی واقعے کا علم ہوا ہے۔ مجھے امید ہے کہ قارئین ان واقعات کو بامقصد لیتے ہوئے پسند کریں گے۔

میری پہلی گاڑی

یہ بات ہے سال 2011 کی۔ جب میں نے اپنی سوزوکی بلینو کو تبدیل کرنا چاہ رہا تھا۔ پاک ویلز پر استعمال شدہ گاڑیوں کے زمرے میں مجھے ایک بہت اچھی ہونڈا سِوک 1995 نظر آئی۔ اشتہار میں لکھا ہوا تھا کہ یہ گاڑی صرف ایک ہی مالک کے زیر استعمال رہی ہے۔ ساتھ لگائی گئی تصاویر بھی اس بات کی شاہد تھیں۔ بلاشبہ یہ ان سِوک 95 میں سب سے اچھی اور صاف ستھری تھی جو میں نے اپنی زندگی میں دیکھی ہیں۔ میں نے گاڑی فروخت کرنے والے صاحب کو فون کیا اور ان سے چند سوالات کیے۔ ان صاحب نے مجھے یقین دلایا کہ یہ گاڑی انہوں نے براہ راست کمپنی سے ہی خریدی تھی اور وہی گاڑی کے پہلے مالک ہیں۔ میں نے اگلے روز ان سے ملاقات کا پروگرام بنایا اور وہاں پہنچ گیا۔ ان صاحب کے پاس پہنچ کر پہلا جھٹکا مجھے سِوک دیکھ کر لگا کیوں کہ اس کی حالت اشتہار میں شامل تصویر والی سِوک سے بالکل مختلف تھی۔ بعد ازاں پتہ چلا کہ ہونڈا سِوک تو وہی ہے لیکن تصاویر پرانے وقتوں کی ہے جب اسے پہلی بار خریدا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: استعمال شدہ سوزوکی بلینو 2001 کا تفصیلی معائنہ

گاڑی کو چلا کر دیکھا تو اس کے سسپنشن میں چند مسائل نظر آئے، کچھ پاور ونڈوز میں خرابی نظر آئی اور تھوڑا بہت کام باقی جگہ بھی نظر آیا۔ اس صورتحال سے میں پہلے ہی پریشان تھا، صاحبِ کار نے یہ بتا کر مجھے مزید جھنجلادیا کہ یہ گاڑی ان کے پاس قریباً ایک سال سے ہے مگر ان کے اپنے نام پر نہیں۔ وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ ایسا کرنے سے گاڑی کی قدر میں کمی آجاتی ہے۔ ان صاحب کو مزید کریدا تو پتہ چلا کہ گاڑی کے پہلے مالک نے اسے 2001 میں فروخت کردیا تھا اور بعد میں دس سالوں کے دوران کسی بھی نئے مالک نے اسے اپنے نام پر منتقل کروانے کی زحمت نہ کی۔ اور اسی وجہ سے گاڑی اب تک پہلے مالک کے نام پر فروخت ہورہی ہے نیز درمیان میں اسے کس نے اور کیسے خریدا، اس کا بھی کوئی اتا پتا موجود نہیں۔

فوری فروخت: مالک بیرون ملک روانہ ہورہا ہے

یہ واقعہ میرے ساتھ گزشتہ رمضان پیش آیا۔ پاک ویلز پر سفید رنگ کی سِٹی 2002 کے اشتہار نے مجھے اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ گاڑی اور اس کی تصاویر ہی کچھ ایسی تھیں کہ جیسے یہ شہر کی سب سے بہترین ہونڈا سِٹی ہو۔ اس کی قیمت بھی مارکیٹ سے کوئی 1 لاکھ روپے کم تھی جس کی وجہ مالک کی بیرون ملک روانگی کی وجہ سے فوری فروخت کرنے کی خواہش تھی۔ بہترین حالت اور کم قیمت دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے فوراً گاڑی کے مالک کو فون گھمایا۔ جس لڑکے سے فون پر بات ہوئی اس نے بتایا کہ گاڑی اس کے اپنے نام پر ہے اور وہ اعلی تعلیم کے لیے بیرون ملک جارہا ہے لہٰذا گاڑی کو 2 روز میں فروخت کرنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ہونڈا سِٹی، آمنہ حق اور نئی طرز کی منفرد گاڑی

میں نے نوجوان کی جلد بازی کو سمجھتے ہوئے اسی روز ملاقات کے لیے وقت طے کیا اور گلستان جوہر روانہ ہوگیا۔ وہاں پہنچ کر میں چاروں طرف اشتہار والی ہونڈا سِٹی ڈھونڈتا رہا مگر وہ مل کر نہ دی۔ نوجوان سے پوچھا تو اس نے سال 2002 کی ہونڈا سِٹی پیش کردی جس کے بیرونی حصہ زنگ آلود ہوچکا تھا، نمبر پلیٹ دھندلا چکی تھی اور ایک جانب اتنا گہرا ڈینٹ تھا کہ جیسے کوئی سوراخ ہو۔ انجن تیل سے تربتر تھا اور سسپنشن تو اپنی معیادمکمل کرچکے تھے۔ یہ سب دیکھ کر میں نے غصے سے پوچھا کہ گاڑی کی اصلی تصاویر کیوں نہیں لگائیں؟ اس پر جواب ملا کہ “یہی گاڑی ہے، بس دھلواکر تصویریں لی تھیں۔۔۔”

عقاب کی نظر

یہ واقعہ سال 2006 میں میرے ایک عزیز کے ساتھ پیش آیا۔ میرے ایک رشتہ دار نیلے رنگ کی ہونڈا سِٹی 2004 فروخت کر رہے تھے جو بمشکل دو سال پرانی تھی۔ پہلے یہ گاڑی ان کے کسی بھتیجے یا بھانجے زیر استعمال تھی اور جب سے میرے عزیز نے خریدی، اسے گھریلو استعمال ہی میں رکھا۔ گاڑی کی حالت بہت ہی اچھی تھی اور اسے فروخت کرنے کی واحد وجہ مارکیٹ میں دستیاب ہونڈا سِٹی 2006 کا نیا انداز تھا، جسے وہ خریدنا چاہتے تھے۔ بہرحال، انہوں نے اس مقصد کے لیے اخبار میں ایک اشتہار دیا۔ اس روز مغرب کی نماز کے بعد جب اندھیرا چھا چکا تھا، ایک لڑکا موٹر سائیکل پر گاڑی دیکھنے کے لیے آیا۔

city_idsi

یہ گاڑی گھر کی پارکنگ میں کھڑی تھی جہاں صرف ایک ٹیوب لائٹ گی ہوئی تھی۔ لڑکے نے چاروں طرف سے گاڑی کا جائزہ لے کر کہا کہ آگے والے بائیں فینڈر پر دوبارہ رنگ کیا گیا ہے۔ میرے عزیز اس نوجوان کی بات سن کر چراغ پہ ہوگئے کیوں کہ گاڑی تو شروع سے ہی ان کے اور ان کے بھتیجے یا بھانجے کے استعمال میں تھی۔ لیکن وہ لڑکا بہت اعتماد کے ساتھ اپنی بات پر قائم تھا کہ گاڑی کے اس حصے پر موجود رنگ اصلی نہیں ہے۔ میرے عزیز نے گاڑی کے پرانے مالک کو فون کیا اور تمام روداد اسے سنائی۔ اس پر علم ہوا کہ یہ گاڑی نقل و حمل کے دوران حادثے کا شکار ہوئی تھی جسے ہونڈا ڈیلر شپ نے ٹھیک کر کے فروخت کردیا تھا۔ صرف وہی صاحب یہ روداد جانتے تھے اور میرے عزیز سمیت کسی کو اس کا علم نہ تھا۔ یہ جان کر میرے عزیز اس نوجوان سے بہت متاثر ہوئے۔ پوچھنے پر علم ہوا کہ اس لڑکے کا تعلق ایک نجی بیمہ کار ادارے سے ہے اور گاڑیوں کی جانچ اس کے لیے روز مرہ کا معلوم ہے۔ کہنا پڑے گا کہ اس لڑکے میں عقاب کی نظر تھی!

ایک ‘ایماندار’ مکینک

ہمارے یہاں گاڑیوں کی لین دین کے معاملات میں مکینک کی حیثیت ایسے امام کی سی ہے جس کی سب اندھی تقلید کرتے ہیں۔ جو وہ کہتا ہے خرید لیتے ہیں اور جس چیز سے ناگواری کا اظہار کیا، اسے ترک کردیا۔ مکینک کی کوشش ہوتی ہے کہ لوگ وہی گاڑی خریدیں جسے ٹھیک کرنا اسے بخوبی آتا ہو جن میں مہران، خیبر اور ایسی ویسی بہت سی گاڑیاں شام ہیں۔ مجھے اس کا تجربہ سال 2011 میں اپنی سوزوکی بلینو فروخت کرتے ہوئے ہوا۔ اشتہار لگوانے کے بعد بہت سے لوگ آئے جن کے ساتھ یہ مخلوق بھی ہوتی تھی۔

baleno_engine

اس دوران ایک پرانی اور انتہائی خستہ حالت والی 1991 کی مہران میں ایک لڑکا آیا جس کی عمر لگ بھگ 20 سال ہوگی۔ اس لڑکے کے ساتھ لحیم شحیم والد صاحب اور ایک جوان مکینک بھی تھا۔ نہ معلوم کیوں لیکن مجھے ایسا محسوس ہوا کہ مکینک بلینو دیکھ کر کچھ پریشان لگ رہا ہے جیسا کہ وہ اسے غصے سے گھور رہی ہو۔

بہرحال، لڑکے والد صاحب نے مجھ سے ملتی ہی گرمجوشی سے ہاتھ ملایا اور مکینک کو گاڑی جانچنےکا حکم کچھ ایسے دیا جیسے انگریزی فلموں میں ایک پولیس والا اپنے پالتو کتے کو گاڑی کی تلاشی لینے کا اشارہ کرتے ہیں۔ مکینک نے سب سے پہلے بونٹ کھولنے کا کہا۔ میں پہلے ہی بھانپ چکا تھا کہ مکینک شدیدگھبرایا ہوا ہے۔ کچھ دیر تک وہ انجن کوایسے دیکھتا رہا جیسے زندگی میں پہلی بار EFI انجن دیکھا ہو۔ اس کے بعد مکینک نے گاڑی اسٹارٹ کرنے کا کہا۔ عام مکینک گاڑی اسٹارٹ ہوتے ہی ایئر فلٹر کے نیچے موجود ایکسلریٹر کیبل دیکھتے ہیں اور اس نے بھی ایسا ہی کیا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر اسے وہ ملا ہی نہیں کیوں کہ بلینو میں اس طرح کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اس نے پھربھی ادھر ادھر جھانکا اور پوچھا “پیٹرول پر اسٹارٹ ہے” اس پر میں نے اسے بتایا کہ گاڑی پیٹرول پر اسٹارٹ ہوتے ہی سی این جی پر منتقل ہوجاتی ہے۔ اس پر اس کے منہ سے حیرت کے مارے “اوہ۔۔۔ ” نکلا۔

یہ بھی پڑھیں: گاڑیوں اور موٹر سائیکل سے متعلق سال 2015 کے بہترین مضامین

پھر وہ لڑکے کے والد کو تھوڑے فاصلے پر لے گیا اور دونوں کے درمیان کان میں کھسر پسر چند منٹ تک جاری رہے۔ پھر وہ صاحب میری جانب بڑھے اور کہا “ہمارے مطلب کی گاڑی نہیں ہے۔۔۔”

لانسر نہیں بکتی

میرے پاس 1991 ماڈل کی مٹسوبشی لانسر ہوا کرتی تھی۔ جب میں نے اس بادامی رنگ کی گاڑی کو خریدا تو کئی لوگوں نے اس پر کچھ اس طرح تبصرہ کیا: “لانسر کیوں خریدلی؟؟؟”، “لانسر کینسر جیسی ہے” اور “بکتی نہیں، پھس جاتی ہے”۔ اس کے باوجود میں نے اسے رکھا کیوں کہ یہ میری پسندیدہ برانڈز میں سے ایک ہے۔ اسے خریدنے کے بعد تقریباً ایک سال کے عرصے میں کم از کم تین بار لوگوں نے مجھے روک کر پوچھا کہ “گاڑی بیچنی ہے؟”۔ مجھے علم ہے کہ لانسر کو ٹھیک رکھنا کافی مہنگا پڑتا ہے اور اسی لیے لوگ اسے پسند نہیں کرتے مگر میرا لانسر کے ساتھ تجربہ شاندار رہا۔ حتی کہ اسے فروخت کرنے کا تجربہ بھی بہت اچھا رھا۔ میں نے لانسر تقریباً ایک سال تک چلائی اور پھر جب پیسوں کی ضرورت پیش آئی تو اس کا اشتہار دے دیا۔ یقین کیجیے! نہ صرف لانسر دو دن میں فروخت ہوگئی بلکہ اپنی قیمت خرید سے 20 ہزار روپے اضافی رقم بھی حاصل ہوئی۔

lancer

میں گاڑیوں کا کام نہیں کرتا

ہمارے پڑوسی نے اپنی نسان سنی 91 فروخت کی جو چند دنوں بعد ہی ایک ویب سائٹ پر دوبارہ بکنے کے لیے نظر آئی۔ لیکن اس بار قیمت میں ایک لاکھ روپے کا اضافہ کیا گیا تھا۔ میں نے گاڑی فروخت کرنے والے صاحب کو فون کیا اور ان سے چند سوالات پوچھے۔ گاڑی کی ملکی پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ “کزن کے نام پر ہے” اور یہ پوچھنے پر کہ کتنے عرصے سے چلا رہے ہیں ؟ ان کا جواب تھا “چار سال سے ہمارے پاس ہے”۔ پھر جب میں نے ان سے پوچھا کہ آیا وہ گاڑیوں کے کوئی ڈیلر تو نہیں؟ اس پر انہوں نے نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ “نہیں جناب، میں یہ کام نہیں کرتا، بس ضرورت کی وجہ سے بیچ رہا ہوں”۔

یہ بھی پڑھیں: نسان اور رینالٹ کی پاکستان میں نئی گاڑیاں متعارف کروانے کی کوششیں

اصل حالت (Original Condition)

میرے ایک دوست سوزوکی مرگلہ لینے کے خواہشمند تھے تو اس کے لیے ہم نے اتوار کے اخبار سے چند اشتہارات نکالے اور مختلف لوگوں سے رابطے کیے۔ اس دوران ہماری ایک ایسے شخص سے بات ہوئی جس نے اپنی گاڑی کی تعریف میں آسمان و زمین ایک کردئیے۔ چونکہ وہ ہمارے گھر کے نزدیک ہی تھا اور وہ سرخ گاڑی بھی روڈ پر کھڑی تھی، اس لیے ہم نے اسی وقت دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ وہاں پہنچنے پر علم ہوا کہ مرگلہ کا رنگ سرخ نہیں بلکہ سفید ہے۔ گاڑی کا اصلی رنگ تو واقعی سرخ تھا جس کے نشانات بونٹ اور چھت کے کچھ حصے میں باقی تھے لیکن گاڑی کا باقی حصہ سفید ہوچکا تھا۔ صاحبِ کار کو اپنی گاڑی اب تک سرخ رنگ ہی کی نظر آتی تھی اور وہ اس کی “اصلی حالت” کو بہترین سمجھ بہت خوش تھے!

margalla_red

مجھے یقین ہے کہ ہر اس شخص کی یہی کہانی ہے جو کبھی استعمال شدہ گاڑی خریدنے یا فروخت کرنے نکلا ہوگا۔ اگر آپ بھی ان میں سے ایک ہیں تو اپنے تجربات ہم سے ضرور شیئر کیجیے۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.